---------- Forwarded message ----------
From: "azam azim azam" <azamazimazam@gmail.com>
Date: Dec 21, 2013 7:13 AM
Subject: █▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ ایک پاو
To: "mshoaibtanoli" <mshoaibtanoli@googlegroups.com>
--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
From: "azam azim azam" <azamazimazam@gmail.com>
Date: Dec 21, 2013 7:13 AM
Subject: █▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ ایک پاو
To: "mshoaibtanoli" <mshoaibtanoli@googlegroups.com>
ایک پاو ¿مچھلی رچ کے کھائی وکِھلائی اور بچ بھی گئی ...!!!اُف مہنگائی کا یہ عالم ہے کہ...!!!
جب ایک غریب نے زندہ مُرغاڈیپ فریج کردیاتوپھر کیا ہوا...؟
محمداعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com
اُف مہنگائی کا میرے مُلک میں یہ عالم ہے کہ میرے دیس کے غریب لوگ اپنی ایک معمولی سے خواہش کی تکمیل کے لئے بھی مدتوں پریشان رہتے ہیں ، اور ایسے میں کہ جب مہنگائی بے لگام ہوجائے تو اِنسانیت پر لرزہ طاری کردینے والے اندہولناک واقعات اور اِن سے بھی کہیں زیادہ افسوس ناک واقعات کاہونالازمی ہوجاتاہے، جن پر دماغ ماو ¿ف اور دل کی دھڑکنیں بندہونے لگ جاتی ہیںاور جب غریب لوگ غربت کا مقابلہ کرتے کرتے تھک جاتے ہیں تو اِن کے سامنے مایوسیوں اور محرومیوں سے نجات اور جھٹکارہ دلانے کا صرف ایک ہی سہراخودکشی کرنا رہ جاتاہے۔
اگرچہ ہمارے مُلک میں خطے کے دیگرممالک کے مقابلے میں خودکشی کا رجحان قدرے کم ہے ،مگرپھر بھی حکمرانوں کی نااہلی اور اِن کی ناقص منصوبہ بندیوں کی وجہ سے مُلک میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے کچھ لوگ اِس فعل کے مرتکب ہوہی جاتے ہیں،مگرآج بھی جو چندایک خودکشی کے واقعات رونماہوتے ہیں اِن پر بھی ہمیں افسوس ہوتاہے کہ ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں کیوں ہوگئے ہیں اگرچہ اِن چند ایک واقعات کی بھی ایک بڑی خاص اور اہم وجہ یہ ہے کہ الحمداللہ ہم مسلمان ہیں اِس لئے بحیثیت مُسلمان ہمارایہ ایمان ہے کہ خودکشی کرناحرام ہے، اِس عمل کو اللہ رب العزت نے ناپسندفرمایاہے، اور مُسلمان کا تو یہ ایمان ہے کہ محض غربت اور ماسیوں کی بناپرخودکشی کرنا کمزروایمان کی نشانی ہے۔کسی بھی حال میں ایک مسلمان کو کم ازکم خودکشی نہیں کرنی چاہئے ،اوراِسی کے ساتھ ہی آج اگرہم دیکھیں تواِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے مُلک میں جو چیزتیزی سے بڑھ رہی ہے یا بڑھائی جارہی ہے وہ صرف اور صرف مہنگائی ہے ، اِس کے علاوہ ہمارے یہاں کسی چیزمیں اضافے کا ہونااور بڑھنا فضول ہے ۔
خیر ایک روز کا ذکر ہے کہ ہمارے جگری دوست عبدالحق بلوچ نے اپنے محلے کے ایک غریب شخص کا واقعہ کچھ اِس طرح سے سُنایا کہ اُس غریب کی کسمپرسی پر جہاں ہمیںافسوس ہواتووہیں حکمرانوں کی بے فکرانہ ا نااہلی پر بھی بڑاغصہ آیا۔
بہرحال..!وہ واقعہ جس کا میں ذکرکرناچاہ رہاہوں عبدالحق بلوچ کی زبانی کچھ یوں ہے کہ اِن کے محلے کا ایک مہنگائی کا مارا شاہ جی نامی غریب شخص اپنی قلیل آمدنی میں سے کچھ گنجائش نکال کر مدتوں بعد آخرکارایک روزایک پاو ¿ مچھلی فرائی خرید ہی لایا،اور اِس ایک پاو ¿مچھلی فرائی کو پہلے اِس نے رچ کے کھایا، پھر اِس کے بیوی اوربچوں نے بھی رچ کے کھایا، مہمان آئے تواُنہوں نے بھی رچ کے کھایااور پھر بھی یہ بچ گی تو اِس نے اگلے روز کے لئے بھی اِسے کھانے کو رکھ دی،اَب جس مُلک میں مہنگائی کا یہ عالم ہوکہ غریب ایک پاو ¿مچھلی فرائی کی خواہش بھی مدتوں بعدپوری کریں اور اِسے اِس طرح کھائیں جیسے غریب شاہ جی اور اِس کی فیملی اور گھرآئے ہوئے مہمانوں نے بھی کھایااور اِس کے بعد بھی اُس غریب کی ایک پاو ¿مچھلی بچ بھی گئی توپھرسوچیں اِس مُلک میں غریب اور غربت کس درجے پر ہوگی، اِس پر میں کچھ نہیں کہوں گاآ پ خودسوچیں کہ ہمیں کیاکہنا اور کیا ہوناچاہئے...؟
اِسی طرح ہمارے دوست عبدالحق بلو چ نے ایک واقعہ یہ بھی سُنایاکہ اِن کے کسی جاننے والے کو کسی نے مشورہ دیاکہ وہ فلاں بیماری کے علاج کے طور پر زندہ دیسی مُرغالائیں اور اِسے اپنے گھرپرذبح کریں اور اِس کا گوشت کھائیں تو اِس سے اِنہیں آفاقہ ہوگااِس غریب نے کئی ماہ بعد اِس مشورے پر عمل کیا اور ایک مہنگا(800سو کا )مگر زندہ اوربڑادیسی مُرغاخرید لایا،شام ہوچکی تھی اور رات سرپر تھی ، یوں اِس غریب بیچارے نے مُرغاذبح کرنے کا پروگرام اگلے روزصبح پر رکھ دیا، اور مُرغے کی ایک ٹانگ اپنے پلنگ کے ساتھ باندھ کر سوگیا، مُرغااِس عالمِ قیدمیں رات بھر پھڑپھڑاتااور چیخ وپکارکرتارہا، جس سے اِس بیچارے بیمارکے آرام میں خلل واقع ہوا، پھرخدانے رات کے کس پہر اِس بیمار بیچارے غریب کی نیندسے آنکھ کُھلی اوراِس نے مُرغے کوپکڑااور جھلاتے ہوئے اِسے ڈیپ فریجرمیں بندکردیااور سکون سے جاکر بسترپر سوگیا،صبح جب اُٹھاتو برف لگے مرغے کو مسجد کے ملا کے پاس ذبح کرانے لے گیامسجد کے ملُلاّنے اِسے بتاکہ یہ تومرچکاہے، اِس کا گوشت استعمال نہیں کیاجاسکتاہے، اِس پر غریب شخص نے کہاکہ مگرمولاناصاحب یہ خراب تونہیں ہواہے، اِس کاگوشت کیوں نہیں کہاسکتے ہیں، مولانا صاحب نے اِس غریب کی اِس بے وقوفانہ بات کامختصراََ یہ جواب دیاکہ ارے میاں یہ مُرغامرچکاہے، اور مرے ہوئے جانورکا گوشت کھانا مسلمان پر حرام ہے، اِس لئے اِس کا گوشت نہیں کھاسکتے،" بس اتناسُنناتھاکہ بیچارے غریب نے اپناسر پیٹ لیا اور اپنے پیرپٹختے ہوئے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے اپنے گھرلوٹ آیااور پھر سوچنے لگاکہ غربت نے اِس کی عقل پر پردھ ڈال دیاتھاوہ اِسے بچانے اور سنبھالنے کے چکرمیں فریج میں رکھ کر اِس سے محروم ہوگیااور اَب پھر کب اِس کے پاس آٹھ سوروپے آئیں گے تو پھر یہ کوئی نیااور بڑازنددہ دیسی مُرغاخریدے گا۔آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ میرے دیس میں کڑوروں ایسے غریب ہوں گے جنہیں اپنے علاج کے غرض سے بھی مہنگے داموں بہت ساری دوائیاں اور کھانے کے لئے مہنگے داموں گائے، بکری ، بھیڑ، مچھلی اور مُرغی اور مُرغے کا گوشت اور پھل فروٹ خریدنے پڑرہے ہیں، اِن غربت کے ماروں کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے ، کہ کوئی حکومتی ادارہ ہی ایساہوجو ایسے غریبوں کا علاج مفت کرے ،جو خطِ غربت سے بھی نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبورہیں ایسے لوگوں کی کوئی حکومتی ادارہ اِن کی خوراک اور دوائیوں کی فراہمی کا مفت او رآسانی سے انتظام کرے۔
آج مُلک کومہنگائی کے عفریت نے اپنے شکنجوں میں جکڑرکھاہے، اورایسے میں چارسو آہ وفغان کرتے بیچارے عوام ہیں ، مگر مہنگائی ہے کہ وہ دانت کھٹے کرکے توڑے جارہی ہے، اور عوام کے پیٹ چاک کرکے بھی رکھ رہی ہے، مگردوسری طرف ہمارے حکمران ہیں کہ یہ کے ٹو کی دھن میں مگن ہیں ، اور اپنی پانچ ماہ کی حکومت میں 206ارب روپے کے اضافی نوٹ چھاپ کر بھی یہ دعوے کررہے ہیں کہ اِنہوں نے مُلک سے مہنگائی کے طوفان کو قابو کرکے اِسے ختم کردیاہے، عوام کو مہنگائی سے نجات دلادی ہے، ہر غریب کے گھر کا چولہاجل اُٹھاہے، مُلکی معیشت آسمان سے بھی اُونچی اُڑان اُڑرہی ہے، بے روزگار نوجوانوں کو قرضہ اسکیم کے تحت انتہائی کم شرح سودپر سُودجیسی لعنت کا طوق اِن کے گلے میں لٹکادیاگیاہے، اورنوجوان اِس طوق کو اپنے گلوں میں ڈال کر خوش ہیں اور حکومت کے اِس اقدام کی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں،کراچی سمیت سارے مُلک میں حکومتی اقدامات کے باعث مثالی امن قائم ہوگیاہے، امن پسندعوام کو گولی اور دھماکوں کی آواز یںسُنیں مہینوں گزرگئے ہیں، چوری ، ڈکیتی، قتل وغارت گری ،کرپشن اور بھتہ خوری جڑ سے ختم ہوچکی ہے، تب ہی بیرون ِ مُلک کے سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے بے چین ہیں،مگرحکومت ہے کہ وہ اِنہیں ابھی اِس بات کی اجازت یوں نہیں دے رہی ہے کہ وہ اِن کی بے چینی اور بے تابی میں اضافہ کرکے اِن کا امتحان لے رہی ہے، اورجب یہ اِس میں پورااُترجائیں گے تو پھر حکومت اِنہیں پاکستان میں سرمایہ کاری کی فوراََ اجازت دے دیگی ،اور مُلک معاشی طور پر اُوجِ ثریاکو چھولے گا،اور اِنفیٹی ایسے ہی بہت سے دعوے ہیں جن کا آج حکومت اور بالخصوص ہمارے کمرشل اور کمرشل ازم کے دلدادہ وزیراعظم میاں نوازشریف کرتے نہیں تھک رے ہیں ، آ ج اِن کا خام اور قوی خیال یہ ہے کہ قومی خزانے کوچھوڑکر جنتے بھی منافع بخش سمیت خسارے میں چلنے والے خواہ جیسے بھی قومی ادارے ہیں اِن سب اداروں کو حکومتی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی بن بولے اور بن تولے فروخت کرکے نجی تحویل میں دے دیاجائے اِس معاملے میں آنکھ بند رکھی جائے اور یہ بھی نہ دکھااور سوچااور سمجھاجائے کہ قومی اداروں کو خریدنے والیاں(خواہ مُلکی نجی کمپنیاں ہوں یا اغیارکی یار بیرونی نجی سرمایہ کارکمپنیاں ہوں ) بس قومی اداروں کو نجی تحویل میں دے دیاجائے، اور پھر اِس کے بعد جھولی پھیلاکر اور ہاتھ بڑھاکر ڈالرزبٹورے جائیں ، آج ہمارے حکمرانوں کی بس اتنی ہی سوچ بن چکی ہے، کہ قومی اداروں کو کوڑیوں کے دام فروخت کرکے مُلکی ترقی کا بیڑاغرق کردیاجائے اِس کے علاوہ اِن کا اپنی حکومت میں اور کچھ کرنے کا قطعاََ کچھ بھی ارادہ نہیں ہے ،اپنے بزنس مائنڈور پورے کے پورے کمرشل وزیراعظم میاں نوازشریف کے مُلک کو کمرشل بنانے والے عزائم دیکھ کر ایسالگتاہے کہ جیسے اُنہوں نے پہلے سے یہ سوچ رکھاہے کہ آج مقدر سے پاک پروردگارنے اِنہیں تیسری مرتبہ مُلک کا وزیراعظم بنادیاہے تو اِنہیں اپنے کاروبار اور اپنی کاروباری برادری کے لئے اتناکچھ اچھاکردیناچاہئے کہ اِن کے جانے کے بعد بھی اِس کے ثمرات اِنہیں اور اِن کی کاروباری برداری کو نصیب ہوتے رہیں اور وہ سُکھ سے اپنا کاروبار چلاسکیں اور آئندہ پھر سے بھلے اِنہیں وزارتِ عظمی ٰ کا منصب نہ ملے مگراِس مرتبہ یہ اپنے اور اپنی کاروباری برادری کو خوش کرجائیں،سوآج وزیراعظم میاںنوازشریف اور اِن کی حکومت میں شامل اِن کا ہر کارندہ یہ سوچ رکھتاہے کہ وزیراعظم کی کمرشل ازم پالیسیوں کومستحکم کیا جائے، اور قومی اداروں کو فروخت کرکے کمرشل سٹم کو مُلک میں پروان چڑھایاجائے۔
جبکہ آج اِس حقیقت سے بھی کوئی ذی شعور مُحب وطن پاکستانی اِنکارنہیں کرسکتاہے کہ نوازلیگ کی اِس حکومت نے اپنی پانچ ماہ کی مدت میں نہ تو مُلک کے لئے کچھ اچھاکرنا تو درکناہے اِس نے اچھے کرنے کے بارے میں سوچنابھی شاید گوارانہیں کیا ہے تو یہ حکومت اور اِس کے سربراہ میاں محمدنوازشریف اور اِن جیسے دوسرے بھلااپنے مظلوم اور بیکس عوام کی فلاح وبہودکے لئے کیا کچھ بہترسوچیں گے...؟ اور کریں گے..؟، جب اِنہیں اپنا ہی دامن بھرنے اور اپنی ہی خالی جیبوں کو جلدی جلدی بھرنے کی پڑی ہو۔اِس موقع پر مجھے شاعرکا یہ شعریادآگیاہے کہ:-
جس کا دعویٰ تھاکہ غربت کو کریں گے نابود آج وہ لوگ بنے بیٹھے ہیں یاربِ معبود
خدمتِ قوم ووطن خاک کریں گے وہ لوگ جن کا مقصُودہو صرف اپنی فلاح وبہبود
اِدھرمُلک میں منہ توڑاور سرپھوڑمہنگائی نے غریبوں کا بھرکس نکال دیاہے، غریب روٹی کو ترس رہے ہیں ، مُلک میں آئی ایم ایف کے پِتھوحکمرانوں نے اِس کے تلوے چاٹنے کو اپنا دین دھرم اور اِس کی غلامی کواپنے لئے باعث افتخارسمجھ رکھاہے اور اِس عمل کے عوض اِس(آئی ایم ایف) سے ملنے والے مشوروں کو عملی جامہ پہناپہناکر مُلک میں بجلی و گیس کی شکل میں توانائی کا مصنوعی بحران پیداکردیاہے، حالانکہ ایسا کچھ نہیں ہے جس سے متعلق آئی ایم ایف نے ہمارے حکمرانوں کو انڈسنڈمشورے دے کر مُلک کو توانائی کے بحرانوں میں جکڑدیاہے، جبکہ مجھے یقین ہے کہ میرے دیس میں موجودہ گیس کے ذخائر مزیدسوسالوں تک نہ توختم ہوسکتے ہیں اور نہ ہی میرے مُلک میں اِس کے بعد بھی گیس کی کبھی قلت درپیش ہوگی ،مگرجب آئی ایم ایف کے ایسے اُلٹے سیدھے مشوروں(جن میں اِس نے ہمارے حکمرانوں سے کہاہے کہ گیس کے ذخائر پاکستان میں چندایک سال میں ختم ہوجائیں گے، اِس کا استعمال احتیاط سے کیاجائے یا اِس کے متبادل کے طورپر دوسرے ذرائع تلاش کئے جائیں جب بِن سوچے سمجھے اور بغیرکسی تحقیق کے )حکمران اِن پر عمل کریں گے تو اِس سے مُلک میں لامحالا مہنگائی بڑھے گی اورکئی ایسے مسائل بھی پیداہوں گے جن فوراََ قابوپانامشکل اور ناممکن بھی ہوجائے گا اور ملکی معیشت کا اِسی طرح ستیاناس ہوتارہے گا، جیساکہ آج ہورہاہے۔
محمداعظم عظیم اعظمazamazimazam@gmail.com
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
No comments:
Post a Comment