Thursday 18 July 2013

پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے ٹی وی لائسنس کی ٹرانسفر کے دوران پیمرا قوانین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں



2013/7/15 Nadeem Khan <sananews2001@gmail.com>

پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض کے ٹی وی لائسنس کی ٹرانسفر کے دوران پیمرا قوانین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں-


اسلام آباد(ثناء نیوز)پاکستان کے پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض حسین کے ٹی وی لائسنس کی ٹرانسفر کے دوران پیمرا قوانین کی دھجیاں بکھیر دی گئیں۔لائسنس ٹرانسفر کے لیے کئی ماہ کا عمل صرف 48 گھنٹوں میں خلاف قانون مکمل کیے جانے کا انکشاف ،زیادہ تر غیر قانونی اقدامات موجودہ چیئرمین پیمرا چوہدری رشید کے دور میں کیے گئے۔ ''بول ٹی وی'' کے لیے صحافیوں کو خطیر رقم ، مرسیڈیز گاڑیوں سمیت کروڑوں روپے کی مراعات کی پیشکش میڈیا کے حلقوں میں زیر بحث ہیں۔ذرائع کے مطابق یہ منصوبہ پاکستان کے سب سے بڑے پراپرٹی ٹائیکون اور ملک کی پریمیئر انٹیلی جنس ایجنسی نے اپنے نقطہ نظر کو سامنے لانے کے لیے لانچ کیا ہے اس منصوبے پر صحافتی و سیاسی حلقوں میں بڑے پیمانے پر مذمت کی جا رہی ہے ۔اس معاملے میں پیمرا کی بے ضابطگیوں کے حوالے سے چیئرمین پیمرا چوہدری رشید کو ان کے موبائل نمبرز 0300-5368885 پر رد عمل جاننے کے لیے ایس ایم ایس کیا گیا جس پر چوہدری رشید کی طرف سے ردعمل کے طور پر ایس ایم ایس میں صرف '' FED '' موصول ہوا۔ملک کے تمام اداروں کے معاملات رولز اینڈ ریگولیشنز کے تحت چلتے ہیں جبکہ ملک کا آئین ، قانونی کی حکمرانی ، شفافیت اور درست اقدامات کی ضمانت دیتا ہے لیکن یہ سب قواعد و ضوابط اس صورت نظر انداز کیے جاتے ہیں جب ملک ریاض حسین کسی بزنس میں ملوث ہو۔ اس بات کا ثبوت بزنس مین ملک ریاض کے ٹی وی لائسنس کے ٹرانسفر کا کیس ہے ملک ریاض کی جانب سے حاصل کیے گئے ٹی وی لائسنس اور بعد میں کسی دوسری پارٹی کو نام نہاد ٹرانسفر کیے جانے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے ایک انگریزی قومی اخبار میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی وی لائسنس کے ٹرانسفر ہونے کا معاملہ انتہائی جلدی میں مکمل کیا گیا۔ ریکارڈ کے مطابق سب سے پہلے ایشیاء نیوز نیٹ ورک (جناح ٹی وی) کمپنی کے ڈائریکٹرز ملک ریاض اور احمد ریاض ملک نے پاکستان الیکٹرونک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) سے ٹی وی لائسنس کے لیے اپلائی کیا۔ مجاز اتھارٹی پیمرا نے 23 جنوری 2008ء کو ایک لیٹر کے ذریعے لائسنس کا اجراء کیا جس میں کہا گیا ہے کہ'' میسرز ایشیاء نیوز نیٹ ورک پرائیویٹ لمیٹڈ کو پاکستان سے اپ لنک ہونے والے انٹرنیشنل سکیل سیٹیلائٹ ٹیلی ویژن چینل قائم کرنے اور چلانے کی اجازت دی جاتی ہے'' لائسنس چند شرائط و ضوابط کے ساتھ جاری کیا گیا تھا جن کو پورا نہ کیے جانے کی صورت میں پیمرا اس لائسنس کو منسوخ کر سکتی تھی۔ قواعد و ضوابط کی شق 3.1 کے مطابق لائسنس حاصل کرنے والا پابند ہو گا کہ لائسنس کے اجراء کے بعد 12 ماہ میں ٹی وی چینل کو آن ایئر کرے گا اور آن ایئر کرنے سے ایک ماہ قبل متعلقہ حکام کو آگاہ کرنے کا پابند ہو گا جبکہ شق 34 واضح کرتی ہے کہ اگر لائسنس حاصل کرنے والا ایک سال کے اندر براڈ کاسٹ آپریشن شروع نہیں کرے گا تو اس کا لائسنس منسوخ ہو گا یا واپس لے لیا جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایشیاء نیوز نیٹ ورک (جناح ٹی وی) نے آج تک کام شروع نہیں کیا اور شرائط کے مطابق پیمرا کو 22 جنوری 2009ء کو لائسنس منسوخ کر نا چاہیے تھا لیکن ایسا نہیں کیا گیا کیونکہ ایشیاء نیوز نیٹ ورک کمپنی بزنس مین ملک ریاض حسین کی تھی۔کہانی یہیں ختم نہیں ہوتی پانچ سال کا عرصہ گزرنے کے بعد 3 اپریل 2013ء ایشیاء نیوز نیٹ ورک کو ہوش آیا اور اس نے اپنے لائسنس کا نام جناح ٹی وی سے بول نیوز میں تبدیل کر نے کی درخواست دے دی۔ 5 اپریل 2013ء کو پیمرا نے 48 گھنٹے میں اس نام کی تبدیلی کی منظوری دے دی۔واضح رہے کہ اس طرح کے معاملات میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے اس پر عمل کرنے کے لیے مہینوں کا وقت درکار ہو تا ہے لیکن چونکہ یہ ملک ریاض حسین کا معاملہ تھا اس لیے اس معاملہ میں صرف گھنٹے لگے۔بات یہیں ختم نہیں ہوئی 8 اپریل 2013ء کو بول نیوز کی ملکیت کی تبدیلی کے لیے درخواست دی گئی۔ پیمرا انتظامیہ ملک ریاض حسین پر حد سے زیادہ مہربان تھی اس لیے 30 اپریل 2013ء کو بول نیوز کی اونر شپ تبدیل کرتے ہوئے ''لبیک ''کے نام کرنے کی منظوری دے دی ۔واضح رہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک پیمرا یا کسی لائسنس ہولڈر سے براڈ کاسٹنگ کا لائسنس حاصل نہیں کر سکتا جب تک پیمرا تحریری اجازت نہ دے۔ یہ پیمرا کی ذمہ داری ہے کہ اس طرح کی اجازت دینے سے قبل سپانسر کی سکرونٹی کرے اس کے مالی وسائل اور ساکھ کا بغور جائزہ لے اور پیمرا نے وزارت داخلہ سے بھی اس چیز کی اجازت لینا ہوتی ہے لیکن اس کیس میں پیمرا کی جانب سے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کی گئی اور کوئی وضع شدہ طریقہ کار نہیں اپنایا گیا اور لائسنس ''لبیک'' کمپنی کے نام ٹرانسفر کر دیا گیا۔ لبیک پرائیویٹ لمیٹڈ کمپنی کی کہانی بھی انتہائی دلچسپ ہے۔6 دسمبر 2006ء کو لبیک کمپنی نے بھی پیمرا سے لبیک کے نام ایک ٹی وی لائسنس حاصل کیا جس کے بعد پیمرا نے لبیک ٹی وی کا نام ''عکس'' میں تبدیل کرنے کا اجازت نامہ دے دیا۔ اس کمپنی نے 4 مارچ 2013ء کو چار نئے ڈائریکٹرز کے نام شامل کرنے کے لیے اپلائی کیا اور اس حوالے سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے سرمایہ کاری طلب کی ہے لیکن حقیقت یہ تھی کہ کمپنی ایک اور گروپ ایگزیکٹ کو فروخت کر دی گئی تھی یہ بات فروخت کرنے والے اور خریدنے والے افراد نے پیمرا سے خفیہ رکھی لیکن 26 مارچ 2013ء کو پیمرا نے نئی مینجمنٹ کی شمولیت کی بھی منظوری دے دی۔واضح رہے کہ پیمرا آرڈیننس کے مطابق ڈائریکٹرز کی تبدیلی بھی پیمرا کا اختیار ہے اور شیئرز کے ٹرانسفر کے لیے بھی پیمرا کی منظوری ضروری ہوتی ہے لیکن ''لبیک'' کے تمام کے تمام شیئرز مجاز اتھارٹی کی منظوری کے بغیر ہی ٹرانسفر کر دیئے گئے سیکورٹی ایکسچینج کمیشن آف پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق ''لبیک ''کمپنی ایگزیکٹ (AXACT) کی ذیلی کمپنی ہے دونوں کی مینجمنٹ ایک ہی ہے 27 مارچ 2013ء تک ''لبیک'' کے شیئرز صدیق اسماعیل اور اس کے بیٹے سلمان اسماعیل کے درمیان تقسیم کیے گئے تھے لیکن اسی تاریخ پر اس کمپنی کے نئے مالکان بن گئے جن میں (اصل مالک) سلمان صدیق، اسماعیل صدیق، شعیب شیخ 12500 شیئرز کے ساتھ نئے مالک، عائشہ شعیب شیخ 12499 شیئرز کے ساتھ نئی اونر، وقاص عتیق کے 12500 شیئرز اور ثروت بشیر 12499 شیئرز کے ساتھ نئے مالکان کے طور پر سامنے آئے۔ ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ 27 مارچ کو ہی سلمان صدیق نے چیف ایگزیکٹو کے عہدے سے استعفی دیا اور کمپنی نے ایس ای سی پی میں ایک نیا فارم 29 جمع کر دیا جس میں کہا گیا تھا کہ شعیب شیخ جو کہ ایگزیکٹ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو آفیسر (CEO) ہیں۔ وہ لبیک کے بھی چیف ایگزیکٹو ہونگے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ 27 مارچ 2013ء کو لبیک کمپنی کے 99 فیصد شیئرز اورکمپنی کا کنٹرول اس شخص کے حوالے کر دیا گیا جو بنیادی طور پر اس کمپنی کا مالک نہیں تھا اور نہ ہی لبیک کمپنی کا اصلی شیئرز ہولڈر تھا۔ قانون کے مطابق کسی دوسری کمپنی کو ٹرانسفر کیا گیا لائنس ایک نیا لائسنس سمجھا جاتا ہے اور یہ پیمرا کی ذمہ داری ہوتی ہے نئے مالک کا نام سیکورٹی کے لیے وزارت داخلہ کو بھجوائے ۔ قانون کہتا ہے کہ ''مجاز اتھارٹی لائسنس کے حوالے سے ملنے والی درخواست فیصلہ 100 دن میں کرے گی تاکہ وزارت داخلہ سے کلیئرنس حاصل کی جا سکے'' لیکن مذکورہ کیس میں پیمرا نے بہت سے حقائق کو نظر انداز کیااور قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے صرف چند ہفتوں میں تمام غیر قانونی اقدامات کیے۔ab/shj/qa


--
--
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Pakistani Press" group.
To post to this group, send email to pakistanipress@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
pakistanipress+unsubscribe@googlegroups.com
For more options, visit this group at
http://groups.google.com/group/pakistanipress?hl=en?hl=en
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "Pakistani Press" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to pakistanipress+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.
 
 



--
Need Your Comments.....!

-- 

For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs

No comments:

Post a Comment