Sunday, 29 December 2013

· بےنظیر کی یادوں کا ایک اور پہلو،،،،!!

---------- Forwarded message ----------
From: "aapka Mukhlis" <aapka10@yahoo.com>
Date: Dec 28, 2013 1:16 PM
Subject: █▓▒░(°TaNoLi°)░▒▓█ · بےنظیر کی یادوں کا ایک اور پہلو،،،،!!
To:
Cc: "joinpakistan@googlegroups.com" <joinpakistan@googlegroups.com>

·   بےنظیر کی یادوں کا ایک اور پہلو،،،،!!
·   عارف امین
-------------------------------------------
کوئی ایک کارنامہ،،، جی ہاں کوئی ایک کارنامہ ہی مرحومہ بینظیر بھٹو کا گنوادیجیئے تو میں کل ہی انکی تصویر اپنی البم میں سجالوں گا اور انکی مدح و توصیف پہ مبنی مضمون لکھ کر اسی فیس بک پہ پوسٹ کردوں گا،،، یہ وہ بات ہے جو میں نے 5 برس قبل اپنے ایک ایسے دوست سے کہی تھی کہ جو پیپلزپارٹی کی محبت میں پور پور لتھڑے ہوئے ہیں چنانچہ انہیں رہ رہ کر اسکے لیئے ستائشی مروڑ اٹھتے ہیں اور وہ جب تک دو چار قصائد " نا کرلیں" انہیں افاقہ نہیں ہوتا،،، میرے وہ دوست اس دن کے بعد سے ایسے غائب ہوئے کہ جیسے رحمان ملک کے سر سے،،،!!!
خیر لیکن میرا سوال غائب نہیں ہوا،،، وہ ابھی تک وہیں کا وہیں دھرا ہے،،، میں نے انہیں یہ بھی کہا تھا کہ اگر آپ نہ بتا سکیں تو پھر میں گنوائے دیتا ہوں،،، اور ظاہر ہے کہ وہ اس پہ حد درجہ مشتعل بھی ہوگئے تھے،،، معاملہ بالکل کچھ اس لطیفے کی مانند ہی ہوا کہ انڈیا میں کسی یونیورسٹی کی کلاس کے دوران جب مختلف لسانی گروہوں کی مقدار زہانت کی بات چھڑی اور استاد نے دریافت کیا کہ بھارت میں سب سے زیادہ بیوقوف قوم کونسی ہے تو یکایک ایک سکھ طالبعلم اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے مکہ لہراتے ہوئے کہا " اوئے اگر کسی نے ہماری قوم کا نام لیا تو میں اسکا منہ توڑ دوں گا،،" اسی لیئے جب میں نے پیپلز پارٹی کے اس جیالے سے کہا کہ اگر تمہیں یاد نہیں تو محترمہ کے کارنامے میں گنواتا ہوں تو انکا غصے میں بپھر جانا یقینی تھا،،،

اس جیالے کو تو خیر چھوڑیئے کیونکہ جیالا اصل میں اپنی قیادت کیلیئے "جی کہنے والا آلہ" ہے اور یہ عقل کی سرحدوں سےماوراایک ایسی کیفیت کا نام ہےکہ جسے ذہنی غلامی کے علاوہ اور کوئی نام دیا ہی نہیں جا سکتا۔۔۔ لیکن میں یہاں اپنے ملک کے عوام سے پوچھتا ہوں کہ چلیں میری معلومات کے لیئےانہی میں سے کوئی بتادے کہ اپنے دور اقتدار میں محترمہ نے کونسا ایسا تیر مارا ہے کہ جسکی بنیاد پہ انکی شبیہ کی یوں آرتی اتاری جاتی ہے،،،؟ ڈالدیا نا آپ سب کو مشکل میں،،،، چلیں سوچنے کلیئے وقت مانگتے ہیں تو وہ بھی دیئے دیتے ہیں ،،، لیکن مجبوری یہ ہے کہ 40 -50 برس انتظار کرسکنے کیلیئے ہمارے پاس وقت نہیں، عمر کی نقدی تھوڑی ہی سی بچی ہے ۔۔۔ اسلیئے مناسب یہ ہے کہ ہماری جانب سے ہی انکے چند کارناموں کا بیاں ہوجائے،،،

-- محترمہ نے اپنے لیئے جس جیون ساتھی کو چنا اس سے ہی انکی اہلیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے بہت سے عالی نسب گھرانوں کو چھوڑ کر پاکستان میں "ڈبل پروگرام" کےنام پہ فحش انگریزی فلموں کے آتشیں ٹوٹے چلانے سے یکایک امیر ہوجانے والے حاکم علی زرداری جو پہلے کبھی بمبینو سینما کے مینیجر (کچھ لوگوں کے مطابق بکنگ کلرک)رہے تھے کے اکلوتے صاحبزادے آصف علی زرداری کا انتخاب کیا جو کہ خود محترمہ کے معیار انتخاب بلکہ دور رس پلاننگ کا واضح ثبوت ہے،،،ان دونوں باپ بیٹوں نے پاکستان کی سیاست میں دھوم مچادینے والے ذولفقار علی بھٹو کے سیاسی پروگرام سے نا صرف کبھی اتفاق نہیں کیا تھا بلکہ حاکم علی زرداری نے تو عوامی نیشنل پارٹی کے عہدیدار کی حیثیت سے انکی خوب مخالفت بھی کی تھی اورپیلپز پارٹی کےامیدوار کے مقابل قومی اسمبلی کا الیکشن بھی لڑا تھا،،،،

ذوالفقار علی بھٹوجیسے عبقری کی بیٹی نے کسی نیکنام فرد سے نہیں بلکہ شادی کرنے کیلیئے اس شخص کو چنا کہ جس کانام پہلی بار پریس کی زینت جب بنا تھا کہ جب 80 کی دہائی کے اوائل میں اس نے( اس وقت کے 16 لاکھ روپے کی لاگت سے) گھومنے والا ڈسکو ڈانس بار "ڈسکوتھ" کے نام سے بنوایا تھا۔۔۔۔ جسکا بڑاچرچا ہوا تھا اور جس سے اسکے زہنی معیار اور افتاد طبع کی بھی خوب شہرت ہوئی تھی ۔۔۔ گویا آصف علی زرداری جیسے زرپرست اور موقع پرست سے شادی محض کوئی اتفاق نہ تھا،،،، یہ محترمہ کا ایک ناپا تولا انتخاب تھا اور صرف ایساہی شخص انکے مستقبل کے منصوبوں کیلیئے "کارگر ثابت ہوسکتا تھا،،،

محترمہ اپنے والد کی پھانسی کے بعد کان میں تکلیف کے عذر کی بنا پہ بیرون ملک علاج کیلیئے چلی گئیں تھیں اور اس وقت کے "جابر ڈکٹیٹر" نے انہیں آرام سے باہر جانے دیاتھا۔۔۔ اسکے بعد محترمہ نے مارشل لا دور حکومت کا تمام وقت کال کوٹھری نہیں ولایت کے آرام دہ ماحول میں باہر ہی گزارا اور 1986 تک اپنی مٹی اور اپنے کارکنان کے ساتھ رہنے کی کوئی کوشش نا کی تاآنکہ افغانستان سے روسی فوجوں کے انخلا کا مرحلہ نا آگیا اور امریکا کو وہ ڈکٹیٹر بہت بری طرح سے کھلنے لگا کہ جو وہاں اسکے عزائم کو پورا ہونے دینے اور من مرضی کی پٹھو حکومت بنے دینے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گیا تھا،،، وزیراعظم جونیجو اور وزیر خارجہ زین نورانی نے بالا ہی بالا اس معاہدے پہ دستخط کردیئے تھے کہ جس سے پیشگی شرائط منوائے بغیر پاکستان نے انخلا کے سمجھوتے کو منظور کرلیا تھا،،، امریکیوںکی آشیرباد ملتے ہی 1986 میں محترمہ نے لاہور ایئرپورٹ پہ لینڈ کیا۔۔۔ اور اقتدار والا بڑا کام ملنے تک ایک اور بڑا کام کیا یعنی یعنی آصف زرداری سے 18 دسمبر 1987 کو شادی کرلی۔۔۔۔

-- 1988 میں جب بینظیر بھٹو نے الیکشن جیت کر اپنی پہلی کابینہ تشکیل دی تو اسکا 65 فیصد حصہ ان لوگوں پر مشتمل تھا کہ جو انکے والد کو پھانسی دینے والے ضیا ءالحق کے دست وبازو بنے رہے تھے۔۔۔ گویا اقتدار کی خاطر محترمہ کو اپنے باپ کے قاتلوں سے سمجھوتہ کرنے میں بھی عار محسوس نا ہوا،،، تو پھر کہاں گئی وہ ّ"عظیم باپ کے نظریات سے کمٹمنٹ"،،،؟ اور۔۔۔ کیا ہوئے اخلاقی اصول۔۔۔ گویا محترمہ کلیئے اقتدار کی محبت ہر محبت سے بڑھکر تھی حتیٰ کہ اپنے باپ کے لہو سے بھی زیادہ،،،

-- 1989 میں جب بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان کے دورے پہ اسلام آبا پہنچے تو رستے سے کشمیر ھاؤس کے بورڈوں اور کشمیر سے وابستہ ہر عبارت کو محض اسلیئے ہٹا اور مٹا دیا گیا کہ انہیں پاکستان کی کشمیر سے یکجہتی کی ہر علامت سے غصہ آسکتا تھا ۔۔۔ اور یوں گویا غیر اعلانیہ طور پہ کشمیر پہ پاکستانی موقف کو لپیٹ کر رکھدیا گیا،،،

-- مذکورہ بالا اسی دورے میں محترمہ نے بھارت اور امریکہ کو خوش کرنے اور اپنی حکومت کو مستحکم کرنے کیلیئے ان سکھوں کے نام وپتے کی فہرست راجیو گاندھی کو دے ڈالی کہ جو نے بھارتی پنجاب میں خالصتان تحریک کے سلسلے میں پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی سے رابطے کرتے رہے تھے،،، اور یوں بھارتی فوج کو اسی آپسی فساد میں الجھائے رکھنے اور اپنی مشرقی سرحد کو محفوظ رکھنے کی اک عمدہ حکمت عملی کو نیست و نابود کردیا۔۔۔

-- اسی زمانے میں پکا قلعہ حیدرآباد میں پہلے بد ترین محاصرہ اور پھر "خونریز" آپریشن کرکے سینکڑوں گھروں کے چراغ گل کرڈالےگئے اور امان طلبی کیلیئے جب بھوکی پیاسی خواتین سروں پہ قرآن رکھے باہر آئیں تو انہیں بھی نا بخشا گیا،،،

-- جب 1993 میں صدر غلام اسحاق خان نے نواز شریف حکومت کو برطرف کیا تو جمہوریت کے سینے میں خنجر پیوست کرنے والے اس گھناؤنے اقدام میں نا صرف انکا بھرپور ساتھ دیا بلکہ نگراں کابینہ کلیئے اپنے قابل شوہر کو وزیر بنوانا نہ بھولیں،،،

-- ساری عمر جمہوریت کیلیئے جدوجہد کرنے والے نوابزادہ نصراللھ خان کو انکی جمہوری خدمات کا یہ صلہ دیا کہ صدارتی انتخابات میں ان سے وعدے کے باوجود انہیں نظرانداز کردیا اسی طرح دوسری مدت کلیئے غلام اسحاق خان کو بھی آسرا دیا اور اپنے مفاد کے کئی کام کرواکےاور پھر انہیں بھی عیں آخری وقت میں دھوکا دیکر ہکا بکا کردیا۔۔۔

-- اپنے دونوں ادوار میں اپنے شوہر کو حکومت کے ہر کام میں دخیل کیا اور اس سے فائدہ اٹھاکر آصف زرداری نے تو "لٹ" ہی مچادی جو کہ ساری دنیا کو نظر آتی تھی لیکن محترمہ کو نہیں،،انکی توجہ جب بھی اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی جاتی تھی وہ بڑی بےنیازی سے اسے سازش کا جامہ پہنا دیتی تھیں۔۔ یہ وہی زمانہ تھا کہ جب غریب ملک کی اس حکمراں خاتون کےگلے میں اس وقت کے 9 لاکھ روپے والا ہار جگمگاتا دکھائی دینے لگا تھا اور سرے محل کی ملکیت کا سوال اٹھنے پہ انہوں نے قومی اسمبلی کے فلور پہ فرمایا تھا کہ سرے محل سے انکا یا زرداری کا کوئی تعلق نہیں ہے،،، جبکہ بعد میں زرداری نے اسکی حوالگی کا مسئلہ اٹھنے پہ اسے اپنی ملکیت جتا کر اسکو اپنا تسلیم کرلیا تھا اور اب وہ انکے اثاثوں کا باقاعدہ حصہ ہے،،، یعنی لوٹ مار اور فریب کاری کے اس کھیل میں محترمہ دل وجان سے شامل تھیں،،،

-- مشرف کے پورے دور میں یہ عظیم جمہوری رہنما بیرون ملک مقیم رہیں اور اسے کسی جمہوری تحریک کے ذریعے نہیں للکارا،، ہاں جب افتخار چوہدری کے حرف انکار نے وکلاء تحریک کو جنم دیا اور مشرف کے ایوان لرز اٹھے تو اس تحریک کی پیٹھ میں محترمہ نے خنجر گھونپنے میں بہت پھرتی دکھائی،،، ایک طرف تو نواز شریف کو "میثاق لندن" کے نام پہ پابند کیا کہ دونوں جمہوری رہنما کسی بھی طور آمر سے کوئی ڈیل نہیں کرینگے اور دوسری طرف اس مشترکہ قوت کے دباؤ سے ڈرا کر مشرف کو اندر خانے خوب بلیک میل کیا اور نواز شریف کو اندھیرے میں رکھ کر خود ہی میثاق لندن کے چیتھڑے اڑاتے ہوئے مشرف سے خفیہ مذاکرات کا ڈول ڈالا اور اس سے ساز باز کرکے اپنے اور اپنے شوہر کے ان مالیاتی کیسیز پہ بدنام زمانہ این آر او کیا کہ جسکے تحت انکی کرپشن کی ہوشربا داستانیں مٹا دی گئیں اور فیصلہ ہونے کے قریب کیسیز کو بھی واپس لے لیا گیا،،،

-- محترمہ جب واپس آئیں تھیں تو اس وقت تک تمام ملکی و غیرملکی سروے اور گیلپ پول کے مطابق انکی مقبولیت انتہائی گراوٹ کا شکار تھی اور نواز شریف کا گراف بلندی کی انتہاؤں پہ تھا،،، اس کا مظاہرہ اس استقبال کی شکل میں بھی ہوا جو انکی وطن واپسی پہ 18 اکتوبر 2007 کو دیکھنے میں آیا۔۔۔ اسیلیئے مایوس غیرملکی طاقتوں نے مقبولیت کو ایمرجینسی ٹیکہ لگاتے ہوئے بم دھماکے کا ڈرامہ بھی اسٹیج کردیا ۔۔۔ تمام ملکی و غیرملکی چینلوں کی کوریج ریکارڈ سے چیک کیا جاسکتا ہے کہ دھماکا ہوتے ہی محض 5 منٹ کے اندر اندر سڑکیں اس "فقید المثال" استقبالی عوام سے یکسر خالی ہوگئیں تھیں کہ جو اگر واقعی بڑے مجمع پہ مشتمل ہوتا تو کس در دیر کے بعد ہی یہ سڑکیں خالی کرائی جاسکتی تھیں۔۔۔

-- ان سب "تھپکیؤں" کے باوجود بات نا بن سکی اور نتیجتاً بین القوامی طاقتوں کو اندر خانے زیادہ تابعدار متبادل نظر آتے ہی انکی بساط حیات کو لپیٹنے کا فیصلہ کرنا پڑا۔۔۔ محترمہ 500 جانثاران بیظیر کی موجودگی میں اور بم پروف گاڑی میں خود کو بہت محفوظ تصور کرتی تھیں ،،، تاہم انہیں یہ حقیقت یاد نا رہی تھی کہ یہ جانثاران کس کے چنے ہوئے ہیں،، بہرحال ہونی ہوکر رہی تاہم اس معاملے سے جڑے کئی سوالات آج بھی پراسراریت کے پردے میں لپٹے ہوئے ہیں،،، مثلاً یہ کہ بینظیر کے ریسکیو اور کور پہ مامور گاڑی جسمیں رحمان ملک اور بابر اعوان سوار تھے وہ بمپر ٹو بمپر ہونے کے باوجود بجائے ہسپتال تک ساتھ جانے کے، وہاں سے کئی کلومیٹر دور زرداری ہاؤس کیوں چلی گئی تھی ۔۔۔ یہ بھی کہ آخری وقت تک جس بلیک بیری فون پہ وہ مصروف گفتگو رہی تھیں وہ آخر غائب کہاں ہو گیا تھا اور 2 سال بعد اچانک بلاول ھاؤس کے ملازم رزاق کے پاس کہاں سے آگیا،،، اور یہ کہ اسکا ڈیٹا کمپنی کے ریکارڈ ہی سے کس نے مٹا دیا،، اقوام متحدہ کی ٹیم ہو یا اسکاٹ لینڈ کی ٹیم اسے رحمان ملک اور بابر اعوان تک رسائی کیوں نا دی گئی ۔۔۔؟ سوالات تو اور بھی بہتیرے ہیں ، لیکن ایک سوال جو ان سب پہ بھاری ہے وہ یہ کہ آخر بینظیر کے قتل کا سب سے بڑا فائدہ کسے ہوا،،،؟ اور شاید یہی سبب ہے کہ آج بھی وطن عزیز میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں کہ جو اس سارے معاملے میں سارا شک خود زرداری صاحب پہ کرتے ہیں۔۔۔

ــ
 آخر میں ہم پھر موضوع پہ واپس آتے ہیں کہ بھٹو خاندان نے جو کہ نہایت متمول جاگیردار خاندان ہے آجتک اپنے پیسے سے اس غریب ملک کے عوام کیلیئے کونسا فلاحی کام کیا ہے،،، نوازشریف کا اتفاق ہسپتال اور عمران خان کا شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی تو سبھی کے علم میں ہیں لیکن ذرا کوئی بتائے کہ سرکاری نہیں مگر بینظیر کے اپنےیا انکے اکٹھا کردہ فنڈ سے کہاں کوئی منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچانے کا درد سر مول لیا گیاہے،،، اسی طرح متنازع ہونے کے باوجود ذولفقار علی بھٹو کے کریڈٹ پہ کئی قابل تعریف کارنامے بھی ہیں ،،، لیکن کیا محترمہ کے پلو میں سوائے بھٹو کی تصویر کے کوئی اور چیز ایسی ہے جو بتائی اور دکھائی جاسکے،،، سوائے اسکے کہ انکے دور میں نجی بجلی گھروں کے ذریعے عوام کو سستی بجلی سے محروم کردیا گیا اور اس کی آڑ میں اربوں روپے کمیشن کھرا کرلیا گیا،،، اسی طرح آگسٹا آبدوزوں اور کئی دفاعی سودوں کی ضمن میں لوٹ مار کی ہوشربا داستانیں سامنے آئیں ۔۔۔ اس ضمن میں کوئی ان کارناموں کیلیئے اگر صرف آصف زرداری کو ذمہ دار ٹہرا کر محترمہ کو "ناواقفیت" کی کلین چٹ دینا بھی چاہے تو نہیں دے سکتا کیونکہ اس سے انکی لیاقت، سوجھ بوجھ اور تدبر جیسی صفات پہ متعدد سوالیہ نشان لگ جاتے ہیں،،، ہمیں تو صرف یہ معلوم ہے کہ محترمہ کے دونوں ادوار میں عوام کی جیبوں سے اربوں روپے غائب ہوئے اور انکی موت کی تحقیقات بھی اس غریب ملک کے عوام کو 65 کروڑ روپے میں پڑیں ۔۔۔ گویا ہوا ہر طرح سے صفایا عوام کی جیب کا
 

--
--
پاکستان کسی بھی پاکستانی کے لئے اللہ کی سب سے بڑی نعمتوں میں سے ایک ہے. آج ہم جو بھی ہے یہ سب اس وجہ پاکستان کی ہے ، دوسری صورت میں ، ہم کچھ بھی نہیں ہوتا. براہ مہربانی پاکستان کے لئے مخلص ہو.
 
* Group name:█▓▒░ M SHOAIB TANOLI░▒▓█
* Group home page: http://groups.google.com/group/MSHOAIBTANOLI
* Group email address MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com
To unsubscribe from this group, send email to
MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com
*. * . * . * . * . * . * . * . * . * . *
*. * .*_/\_ *. * . * . * . * . * . * . * . * .*
.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨) ¸.•´¸.•*´¨) ¸.•*¨)
(¸.•´ (¸.•` *
'...**,''',...LOVE PAKISTAN......
***********************************
 
Muhammad Shoaib Tanoli
Karachi Pakistan
Contact us: shoaib.tanoli@gmail.com
+923002591223
 
Group Moderator:
*Sweet Girl* Iram Saleem
iramslm@gmail.com
 
Face book:
https://www.facebook.com/TanoliGroups
 
---
You received this message because you are subscribed to the Google Groups "M SHOAIB TANOLI" group.
To unsubscribe from this group and stop receiving emails from it, send an email to MSHOAIBTANOLI+unsubscribe@googlegroups.com.
For more options, visit https://groups.google.com/groups/opt_out.

No comments:

Post a Comment