Saturday 3 August 2013

اعتکاف(تصّوف کی ابتدائ ی منزل)



----------  ----------
From: saba sagar <gulerana43@yahoo.com>
Date: 2013/7/31
Subject: [] Fw: اعتکاف(تصّوف کی ابتدائی منزل)
To: "mandka@yahoogroups.com mandka@yahoogroups.com" <mandka@yahoogroups.com>, "MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com" <MSHOAIBTANOLI@googlegroups.com>, "Master_Mind_Pakistani@yahoogroups.com" <Master_Mind_Pakistani@yahoogroups.com>, "Media_And_Islam@yahoogroups.com" <Media_And_Islam@yahoogroups.com>, "Meri_Mohabbatein@yahoogroups.com" <Meri_Mohabbatein@yahoogroups.com>, "My-Diary@yahoogroups.com" <My-Diary@yahoogroups.com>, "m+802cq9e0000zg46fiqzi004qyoepsvgf28s@reply.facebook.com" <m+802cq9e0000zg46fiqzi004qyoepsvgf28s@reply.facebook.com>, "notavailables@yahoogroups.com" <notavailables@yahoogroups.com>, "NICEpoetry_Group@yahoogroups.com" <NICEpoetry_Group@yahoogroups.com>, "NasreeN-GrouP@yahoogroups.com" <NasreeN-GrouP@yahoogroups.com>, "PakistanWritersClub-Riyadh@yahoogroups.com" <PakistanWritersClub-Riyadh@yahoogroups.com>, "Pehli_Nazar_Ka_Pyaar@yahoogroups.com" <Pehli_Nazar_Ka_Pyaar@yahoogroups.com>, "Pindi-Islamabad@googlegroups.com" <Pindi-Islamabad@googlegroups.com>, "pakistan-my-quest@yahoogroups.com" <pakistan-my-quest@yahoogroups.com>, "publishyourself@yahoogroups.com" <publishyourself@yahoogroups.com>, "queen_of_roses@yahoogroups.com" <queen_of_roses@yahoogroups.com>, "Rukhsana@yahoogroups.com" <Rukhsana@yahoogroups.com>, "raynbow@yahoogroups.com" <raynbow@yahoogroups.com>, "SALMANRIZWAN@yahoogroups.com" <SALMANRIZWAN@yahoogroups.com>, "SanaM_O_SanaM@yahoogroups.com" <SanaM_O_SanaM@yahoogroups.com>, "ShaanSe_Group@yahoogroups.com" <ShaanSe_Group@yahoogroups.com>, "Shaheen_Poetry_World@yahoogroups.com" <Shaheen_Poetry_World@yahoogroups.com>, "Shaheenz-com@yahoogroups.com" <Shaheenz-com@yahoogroups.com>, "Shaheenz_Poetry_Images@yahoogroups.com" <Shaheenz_Poetry_Images@yahoogroups.com>, "Shayarie_iShq_MoHabbat@yahoogroups.com" <Shayarie_iShq_MoHabbat@yahoogroups.com>, "Silent_Lovely@yahoogroups.com" <Silent_Lovely@yahoogroups.com>, "sabasagar1@yahoo.com" <sabasagar1@yahoo.com>, "simple-islam@yahoogroups.com" <simple-islam@yahoogroups.com>, "Touch_Underworld@yahoogroups.com" <Touch_Underworld@yahoogroups.com>, "Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com" <Tere_Tamana_Ha@yahoogroups.com>, "Tere_ishq_Main@yahoogroups.com" <Tere_ishq_Main@yahoogroups.com>, "The-Karachi-World@yahoogroups.com" <The-Karachi-World@yahoogroups.com>, "To_Touch_The_Heart@yahoogroups.com" <To_Touch_The_Heart@yahoogroups.com>, "Touch_Last_Wish@yahoogroups.com" <Touch_Last_Wish@yahoogroups.com>, "the-criterion-world@yahoogroups.com" <the-criterion-world@yahoogroups.com>, "V_Hina@yahoogroups.com" <V_Hina@yahoogroups.com>, "vfun@yahoogroups.com" <vfun@yahoogroups.com>, "WoWToWoW@yahoogroups.com" <WoWToWoW@yahoogroups.com>, "wazirabad7@msn.com" <wazirabad7@msn.com>, "world_of_true_friend@yahoogroups.com" <world_of_true_friend@yahoogroups.com>, "worldmalayaliclub@yahoogroups.com" <worldmalayaliclub@yahoogroups.com>, "Yaadein_Meri@yahoogroups.com Yaadein_Meri@yahoogroups.com" <Yaadein_Meri@yahoogroups.com>, "Youthfun@yahoogroups.com" <Youthfun@yahoogroups.com>, "younique_group@yahoogroups.com" <younique_group@yahoogroups.com>


 



 

اعتکاف
(تصّوف کی ابتدئی منزل)
علم کی دنیا میں حکمائے یونان کو جو مقا م حاصل ہےاس سے ہم سب واقف ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت تک نوعِ انسانی کی جس قدر تاریخ ہمارے سامنے آچکی ہے، اس میں علم و حکمت کی داستان کا آغاز یونان سے ہوتا ہے۔ان میں سقراط  کو ابو الآباء اور افلاطون  کو اس کے بہترین شارح، اور بجائے خویش ایک مکتبِ فکر موسّس کی حیثیت حاصل ہے۔لیکن سقراط صرف انسان کو قابلِ مطالعہ سمجھتا ہے، کائنات کو نہیں۔اس کے فلسفے کا نقطۂ ماسکہ ہے کہ آپنے آپ کو سمجھو۔افلاطون عالمِ محسوس کے وجود پر ہی خطِ تنسیخ کھینچ دیتا ہے۔اس کا خیال ہے کہ یہ کائنات جو ہمیں اس طرح محسوس دکھائی دیتی ہے اپنا وجود ہی نہیں رکھتی۔اصلی اور حقیقی کائنات عالمِ امثال(ورلڈ آف آئیڈیاز) میں ہے اور یہ مرئی (وزیبل) کائنات اس حقیقی دنیا کا عکس ہے۔  لہٰذا اس کائنات کے متعلق جو علم، حواس (سینسز)کے ذریعے حاصل کیا جائے (یعنی پرسیپچوال نالج) وہ قابلِ اعتماد ہی نہیں۔یقینی علم وہ ہے جو آنکھیں اور کان بند کرکے عالمِ تصور میں حاصل کیا جائے۔افلاطون کا یہی فلسفہ ہے جس پر یونانی تصّوف کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ہندوستان میں پہنچ کر اسی نے ویدانت کی شکل اختیار کی، چنانچہ ہندو فلسفہ کی رُو سے پراکرتی(مادی دنیا) مایا(فریب) ہے۔یہ سب برہما کا سپنا(اللہ کا خواب) ہے، ایشور کی لِیلا ہے یعنی ناٹک کھیل جس میں کوئی شے حقیقی نہیں ہوتی بلکہ حقیقت کی تمثیل ہوتی ہے۔نہ بادشاہ ،بادشاہ ہوتا ہے ، نہ غلام ،غلام، نہ دریا، دریا ہوتا ہے، نہ پہاڑ ، پہاڑ، یہ سب فریبِ نگاہ ہوتا ہے۔اسی بناء پر ہندو فلسفہ میں اللہ کو "نٹ راجن" کہا جاتا ہے، یعنی نٹوں (ایکٹروں، کھلاڑیوں) کا بادشاہ۔اس مقام پر ضمناً یہ بھی سمجھ لینا ضروری ہے کہ کائنات کو اس طرح باطل قرار دینے کا نتیجہ تھاکہ اس کی طرف سے انسان کے دل میں منفی نقطۂ نگاہ(نیگیٹیو ایٹی چیوڈ) پیدا ہوجائے۔یہی منفیانہ اندازِ نگاہ تھا جس نے "خدا پرست" انسانوں کی نگاہ میں دنیا کو قابلِ نفرت بنا دیا۔یہی وہ فلسفہ ہے جو ایرانی تصّوف کے راستے مسلمانوں میں بھی آگیا اور ان کی زندگی کے ہر گوشے کو متاثر اور مسموم کر گیا۔ہمارے تصّوف کی ساری عمارت اسی بنیاد پر قائم ہے اور ہماری شاعری چونکہ اسی تصّوف کی نقیب ہے اس لئے ہمیں بھی قدم قدم پر اس قسم کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔کبھی سقراط کے اتّباع میں یہ کہا جاتا ہے کہ ؎
ستم است گر ہوست کشد کہ بہ سیرِ سروسمن درا
توزغنچہ کم نہ دمیدۂٖ درِ دل کشا بہ چمن درا
اور کبھی افلاطون کے تتبّع میں یہ کہ؎
ہستی کے مت فریب میں آجائیو ااسؔد                 عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے
اور اسی سے ہمارے ہاں بھی دنیا قابلِ نفرت سمجھی جانے لگی۔
قرآن سے پہلے کائنات سے متعلق نظریہ  یہ تھا کہ اس کا حقیقی وجود کچھ نہیں، یہ محض فریبِ تخیّل ہے، سراب ہے، سایہ ہے، وہم ہے، گمان ہے۔اور جب کائنات وہم و فریب ہے تو اس کے متعلق علم بھی ، درحقیقت علم نہیں، ظنّ و گمان ہے۔قرآن آیا اور اس نے ہر باطل تصور کی طرح افلاطون کے اس طلسم کی بھی دھجیاں بکھیر کر رکھ دیں۔اس نے تصّوف اور ویدانت کے نظر فریب تخیلات میں الجھی ہوئی انسانیت کو للکار کر پکارا اور کہا کہ : وما خلقنا السمآءُ والارض وما بینھما باطلاً۔"کائنات کی پستیوں اور بلندیوں میں جو کچھ  ان کے درمیان (یعنی خلاء) میں ہے ہم نے اسے باطل پیدا نہیں کیا"۔ذالک ظنّ الذین کفروا "یہ اُن لوگوں کا ظن و خیال اور وہم وگمان ہے جو حقیقت سے انکار کرتے ہیں"۔فویل لّلّذین کفروا من النّار (38/27) " اور جو لوگ اتنی بڑی حقیقت سے انکار کریں (اور دنیا کو باطل اور قابلِ نفرت ٹہرا دیں) تو ان کے اس کفر کا نتیجہ اس کے سوا اورکیا ہوسکتا ہے کہ ان کی سعی وعمل کی کھیتیاں جھلس کر رہ جائیں۔اس اک آیت نے صدیوں کے غلط تصور کو جڑِ بنیاد سے اکھیڑ کر رکھ دیا۔اور اس کے انسانیت سوز نتائج کو بے نقاب کردیا۔
غور کیجئے کہ قرآن کی رُو سے کفر اور ایمان کی حدیں کہاں تک چلی جاتی ہیں اور کافر و مومن کے امتیازی خصائص کیا ہیں؟پھر کہ اس قسم کے منفیانہ اندازِ نگاہ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسانیت کی مزرعِ ہستی جل کر راکھ ہوجاتی ہے۔تو یہ کتنی بڑی تاریخی حقیقت کا بیان ہے؟ کائنات کے متعلق منفیانہ اندازِ نگاہ کا مظہر مسلکِ خانقاہیت ہے، اسی کو ویدانت اور تصّوف کہتے ہیں۔اس مسلک کی تاریخ پر غور کیجئے اور دیکھئے کہ اس راستہ میں انسانوں نے جس قدر جانکاہ مشقتیں اٹھائی ہیں  او رصبر طلب ریاضتیں کین ان کا نتیجہ اس کے سوا کیا نکلا کہ انسان کی عمرانی زندگی کی ہری بھری شاخیں جھلس کر رہ گئیں۔
یہ تو تھا کائنات  کو باطل قرار دینے والوں کے خلاف اعلان جنگ۔اس کے بعد مثبتانہ انداز میں کہا کہ :خلق اللہ السموٰت والارض بالحق۔"حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے اس پست و بلند کائنات کو بالحق پیدا کیا ہے"۔کائنات حقیقت پر مبنی ہے، فریبِ تخیل نہیں۔یہ یکسر تعمیر مقاصد کے لئے پیدا کی گئ ہے، تخریبی نتائج کے لئے نہیں۔ان فی ذٰلک لاٰیۃ لّلمؤ منین(29/44) "اس انکشاف ِ حقیقت میں جو قرآن نے کیا ہے علم و آگہی کی بہت بڑی نشانی ہے، ان لوگوں کے لئے جو اس پر یقین رکھتے ہیں"۔سابقہ آیت میں کائنات کو باطل قرار دینے والوں کو  کافر کہا گیا تھا، زیرِ نظر آیت میں اسےحق سمجھنے والوں کو مومن قرار دیا گیا ہے۔
کائنات کو "ایشور کی لِیلا" قرار دینے والوں کے نظریہ کے ابطال میں کہا کہ  : وما خلقنا السمٰوٰت والارض وما بینھما لٰعبین (44/38) "کائنات کی پستیوں اور بلندیوں اور انکے درمیان (یعنی خلاء) میں جو کچھ ہےہم  نے اسےیوں ہی کھیلتے ہوئے پیدا نہیں کیا"۔(غور طلب ہے کہ یہاں خلاء میں  بھی جو توانائیاں مضمر ہیں انکی طرف بھی اشارہ ہے)۔تخلیقِ کائنات ایک اہم (سیریس) پروگرام کا جزو ہے، کھیل تماشہ نہیں۔اسے بالحق پیدا کیا گیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرآن اپنے اس دعویٰ کو کہ کائنات بالحق پیدا کی گئی ہے ، یونہی منوانا  چاہتا ہے یا علم و بُرہان کی رُو سے تسلیم کرنے کی دعوت دیتا ہے؟ قرآن اپنے ہر دعویٰ کو علم و بُرہان کی بنیادوں پر پیش کرتا ہےاور فکر وبصیرت کی رُو سے ماننے کی تاکید کرتا ہے، چنانچہ اس ضمن میں بھی واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ :یفصل الاٰیٰت لقوم یعلمون(10/5)"ہم ان حقائق کو ان لوگوں کے لئے کھول کھول کر بیان کرتے ہیں جو علم رکھتے ہیں۔
یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ علم کسے کہتے ہیں؟ دیکھئے قرآن اس باب میں کیا کہتا ہے۔وہ کہتا ہے کہ : لاتقف مالیس لک بہٖ علم۔"یاد رکھو ! جس بات کا تمہیں علم نہ ہو اس کے پیچھے مت لگا کرو"۔آیت کا اتناحصہ بھی کچھ کم حقیقت کشا اور بصیرت افروز نہیں، لیکن اس کے بعد کے چند الفاظ نے علم کی ایک ایسی تعریف (ڈیفینیشن) دیدی ہے جس سے ساری بات نکھر کر سامنے آجاتی ہے۔فرمایا: ان السمع والبصر والفؤاد کل اولٰئٖک کان عنہ مسؤلاً (17/36)" یہ حقیقت ہے کہ تمہاری سماعت، بصارت اور فؤاد ہر ایک پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے " یعنی قرآن سمع (سننے) اور بصر(دیکھنے) کو انسانی حواس(سینسز) کے معنوں میں استعمال کرتا ہے(یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیجئے کہ ڈیٹا کلیکشن) اور فؤاد وہ چیز ہے جسے دورِ حاضر کی اصطلاح میں ذہن یا مائنڈ کہا جاتا ہے۔انسانی حواس  معلومات فراہم کرکے انسانی فؤاد تک پہنچاتے ہیں  اور فؤاد ان سے استنباط ِ نتائج کرتا ہے۔آپ گولی کی آواز سنتے ہیں تو فوراً اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کسی کے گولی لگ گئی۔اور باہر جا کر دیکھتے ہیں کہ جسے گولی لگی ہے وہ آپکا کوئی دوست ہے تو گولی چلانے والے کے خلاف آپکے دل میں آتشِ انتقام بھڑک اٹھتی ہے۔اس تمام واقعہ میں آپکے سمع و بصر و فؤاد کی شہادت موجود ہے، لہٰذا یہ علم ہے۔لیکن اگر آپ نہ بندوق کی آواز سنیں، نہ کسی کی چیخ، نہ اپنے دوست کو تڑپتا دیکھیں، نہ کسی گولی چلانے والے کو ، اور یونہی کسی کی بات سن کر ایک شخص کی جان کے لاگو ہو جائیں تو آپکا یہ فعل علم پر منبی نہیں ہوگا،کیونکہ اس میں آپکے سمع وبصر کی شہادت موجود نہیں۔غور کیجئے کہ قرآن علم کے بارے میں حواس کو کس قدر اہمیت دیتا ہے۔یہ دوسری ضرب ہے جو وہ افلاطونی تصور کے خلاف لگاتا ہے اور اسے پاش پاش کرکے رکھ دیتا ہے۔افلاطون نے کہا تھا کہ حواس کے ذریعے حاصل کردہ علم پر اعتماد نہیں کیا  جاسکتا۔قرآن نے کہا کہ جس بات کی شہادت سمع و بصر نہ دے وہ علم پر مبنی ہی نہیں۔لیکن صرف سمع و بصر ہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ فؤاد بھی۔سمع و بصر و قلب  و فؤاد کی اسی کیفیت کے پیشِ نظر قرآن نے صاف الفاظ میں کہہ دیا کہ جو لوگ ان سے کام نہیں لیتے وہ انسانی سطح پر نہیں بلکہ حیوانی سطح کی زندگی بسر کرتے ہیں۔اتنا ہی نہیں بلکہ وہ انہیں جہنمی قرار دیتا ہے۔سورۂ اعراف میں ہے: ولقد ذرانا لجھنم کثیراً من الجن والانس"جن و انس (یعنی شہری اور صحرائی آبادیوں) میں اکثر وہ لوگ ہیں جو اس قسم کی زندگی بسر کرتے  جو انہیں سیدھی جہنم کی طرف لے جاتی ہے"۔لھم قلوب لّا یفقھون بھا" ان کی روش یہ ہے کہ وہ سینے میں دل رکھتے ہیں لیکن ان سے دیکھنے کا کام نہیں لیتے"، ولھم اٰذان لّا یسمعون بھا" وہ کان رکھتے ہیں لیکن ان سے سننے کاکام نہیں لیتے" اولٰئک کالا نعام بل ھم اضل،،" یہ انسان نہیں ، حیوان ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گم کردہ راہ"۔اولٰئک ھم الغٰفلون (17/179)" یہ علم و حقیقت سے بے خبر ہوتے ہیں"، اس سے بھی واضح ہے کہ علم وہی علم ہے جس کی شہادت سمع و بصر و قلب و فؤاد دیں۔ظاہر ہے کہ اس قسم کا علم نظری مباحث(تھیوریٹیکل پرابلم) کے متعلق نہیں ہو سکتا، کیونکہ ایسے امور میں ، سمع و بصر کاکوئی واسطہ ہی نہیں ہوتا۔ سمع وبصر کا تعلق مظاہرِ فطرت کے مشاہدات اور کائناتی نظام کے مطالعہ سے ہے۔یعنی کائنات کے ایک ایک گوشے کو غور وفکر سے دیکھنا۔اس عظیم القدر اور محّیر العقول مشینری کے ایک ایک پرزے کا مشاہدہ کرنا۔پھر مختلف تجربات کی رُو سے یہ دیکھنا کہ ان پرزوں کی ساخت و پرداخت میں کونسا قانون اور ان کی نقل و حرکت میں کونسی اسکیم کار فرما ہے۔اسی کو دورِ حاضرہ کی اصطلاح میں علمِ سائنس (سائنٹفک نالج) کہتے ہیں۔اور اسی کو قرآن مومنین کا شعار بتاتا ہے۔قرآن نے اس حقیقت کو بڑے حسین انداز سے بیان کیا ہے۔سورۂ آل عمران میں ہے: ان فی خلق السمٰوٰت والارض واختلاف الّیل والنھار لاٰیٰت لاولی الالباب ۔"یقیناً اس کائنات کی پستیوں اور بلندیوں کی تخلیق اور رات اور دن کی گردش میں صاحبانِ عقل و شعور کے لئے بڑی بڑی نشانیاں ہیں۔یہاں ایک بات ضمناً سمجھ لینا ضروری ہے ۔ایک چیز تو ہے کائنات کا عدم سے وجود میں آنا۔اسے قرآن نے بدع اور فطر سے تعبیر کیا ہے۔اور دوسری چیز ہے موجودہ عناصر میں مختلف تراکیب و تناسب سے مختلف چیزیں  بناتے چلے جانا۔اسے عام طور پر تخلیق کہا گیا ہے۔خلق کے معنی صحیح صحیح تناسب کے ہیں۔بنا بریں تخلیق ارض و سماء سے مفہوم یہ ہے کہ کائنات میں مختلف عناصر میں تراکیبِ نو سے مختلف تغیرات رونما ہوتے ہیں اور نئی نئی چیزیں ظہور میں آتی ہیں اور ان پر غور و فکر کرنے سے کائناتی پروگرام اور قانونِ فطرت کی بڑی بڑی عظیم نشانیاں سامنے آجاتی ہیں۔انسانی فکر کچھ نہیں بتا سکتا کہ کائنات کسطرح عدم سے وجود میں آگئی۔یہی وہ مقام ہے جو فکرِ انسانی کی حدودو سے ماورا ہے، لہٰذا قرآن نے اس مقام کے متعلق فکرو تدبر کی دعوت نہیں دی۔فکر و تدبر کا مقام وہاں سے شروع ہوتا ہے جہاں اس محسوس کائنات کے تغیرات اور حوادث ہمارے مشاہدے میں آتے ہیں۔بہر حال قرآن نے  کہا ہے کہ تخلیق ارض و سماء اور اختلاف لیل و نہار میں اربابِ دانش و بینش کے لئے بڑی نشانیاں ہیں۔وہ اربابِ دانش و بینش کون ہیں؟ وہ ہیں: الذین یذکرون اللہ قیٰماً و قعوداً و علیٰ جنوبھم۔"جو اٹھتے بیٹھتے لیٹتے ہر وقت قانونِ الٰہی کو اپنے سامنے رکھتے ہیں۔ویتفکرون فی خلق السمٰوٰت والارض "یعنی تخلیق ِ ارض و سماء میں غور وفکر کرتے رہتے ہیں" اوراپنے مشاہدات و تجارب کے بعد علی وجہ البصیرت اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ : ربّنا ما خلقت ھٰذا باطلاً ۔"اے ہمارے نشو ونما دینے والے ، تونے کائنات کی کسی شے کو بیکار یا تخریبی نتائج کے لئے پیدا نہیں کیا"۔ یہ ہےقرآن کو ماننے والوں کا فریضہ۔غور کیجئے اس کے لئے کس وسیع و عمیق سائنٹفک تحقیاقات کی ضرورت ہے اور اس کے لئے کتنی بڑی بڑی معمل یا لیباریٹریز درکار ہیں۔ سبحٰنک۔تُو اس سے بہت دور ہے کہ کسی شےکو محض تخریب کے لئے پیدا کردے۔یہ چیز تیری شانِ ربوبیت  سے بہت بعید ہے۔یہ تو ہماری کم علمی ہے کہ تُو ہمیں انکی تحقیقات کی توفیق عطا فرماتا ہے کہ ہم اس قسم کے دردناک عذاب سے محفوظ رہیں۔فقنا عذاب النّار۔اس لئے کہ جو قومیں اس قسم کی تحقیقات یا ریسرچ سے اشیائے کائنات کے نفع بخش پہلوؤں سے بے خبر رہتی ہیں وہ تسخیرِ فطرت نہیں کر سکتیں۔لہٰذا دنیامیں ذلت وخواری کی زندگی بسر کرتی ہیں۔ربّنا انّک من تدخل النّار فقد اخزیتہٗ  اور پھر ان ظالمین کا دنیا بھر میں کوئی یارو مددگار نہیں ہوتا۔وما للظٰلمین من انصار(3/191)۔
اس میں ذرا شک نہیں کہ تصّوف کا وجود سر زمینِ اسلام میں ایک اجنبی پودا ہے جس نے عجمیوں کی دماغی آب وہوا میں پرورش پائی۔(علامہ اقبال)
اگرچہ تصّوف قریب قریب دنیا کی ہر قوم میں موجود ہے اور آج سے نہیں بلکہ تاریخ کے اوّلین اوراق سے اس کا تذکرہ شروع ہوجاتا ہے لیکن اس کے باوجود مذہب یعنی ریلیجن کی طرح اس کی بھی کوئی جامع اور مانع تعریف آج تک نہیں ہوسکی۔اس کا دائرہ بہت سے تجارب و کیفیات ، احوال و مقامات اور شعائر و مناسک کو محیط ہے ۔لیکن ان میں دو بنیادی عناصر ایسے ہیں جو تصّوف کی اصل سمجھے جاتے ہیں۔یعنی (1) انسان کا اللہ کے ساتھ براہِ راست مکالمہ اور (2) نفسِ انسانی کا حقیقتِ مطلقہ یعنی اللہ کے ساتھ مل جانا۔جسے وصال یا فنا کہتے ہیں۔یہ تمام کیفیات ہر فرد کی ذاتی یعنی انفرادی ہوتی ہیں جن میں کوئی دوسرا فرد شریک نہیں ہوتا۔نہ وہ  فرد ان کیفیات کو کسی دوسرے کو محسوس کرا سکتا ہے۔اس اعتبار سے تصّوف ، بہ حیثیت ایک مذہب کے ، یکسر شخصی یا ذاتی مذہب ہوتا ہے اور یہ تجارب ، اس کائنات کے حسّی یا مشاہداتی علم کے بغیر، ایک ایسے ذریعہ سے حاصل ہوتے ہیں جو بالکل نگاہوں سے مستور اورحواس سے پوشیدہ رہتا ہے۔اس کو باطنی ذریعۂ علم کہتے ہیں۔اس علم کے حصول کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ نفسِ انسانی جب باطن کی گہرائیوں میں چلا جاتا ہے تو وہاں یہ اس حقیقتِ کلّی میں جذب ہوجاتا ہے جو کائنات کے رگ و پے میں جاری و ساری ہے۔اور اس طرح نفسِ انسانی اور حقیقت ایک ہوجاتے ہیں۔اور وہ بغیر کسی ذریعہ یا واسطہ کے تمام حقائق کا براہِ راست مشاہدہ کر لیتا ہے۔مشاہدہ کیا، وہ خود ہی حقیقت بن چکا ہوتا ہے۔ چونکہ حقیقت ِ مطلقہ تمام مادی اور محسوس نسبتوں سے بلند اور منّزہ ہے، اس لئے نفسِ انسانی اس کے ساتھ اسی صورت میں پیوست، بلکہ اس کے اندر ضم، ہو سکتا ہے جب یہ خود تمام محسوس اور مادی علائق سے بلند  اور پاک ہوجائے۔اس کے لئے نہ صرف دینوی حظائظ و لذّات سے ترکِ تعلق ضروری ہے بلکہ اپنے قلب و دماغ کو بھی اس مقام پر لے جانا ہوتا ہے جہاں اس محسوس دنیا کے نقوش اور خیالات کا کوئی گزر نہ ہو۔ یعنی مادی دنیا کی آلائش تو ایک طرف، محسوس اشیاء کے تصورات اور خیالات تک بھی دماغ میں نہ آنے پائیں۔ تصّوف کی اصطلاح میں اس کیفیت کو مکمل تاریکی (کمپلیٹ ڈارکنس) سے تعبیر کیا جاتا ہے۔یہ لوگ دنیائے محسوسات سے اس قدر دور چلے جاتے ہیں کہ ان کے عقیدہ کی رُو سے وحی کے الفاظ بھی محسوسات میں داخل سمجھے جاتے ہیں۔اس لئے وہ انہیں چھوڑ کر ، وحی کا صحیح مفہوم اس باطنی دنیا سے متعین کرتے ہیں جس کا علم انہیں براہ راست حاصل ہوتا ہے۔اسے وہ حقیقت کا باطنی علم یا خود "حقیقت" کہتے ہیں۔چونکہ اس طریق سے حاصل کردہ علم کو بلا واسطہ علم ((ڈائرکٹ نالج) کہتے ہیں اس لئے وہ اسے یکسر حتمی اور یقینی قرار دیتے ہیں۔اور اس کے مقابلہ میں محسوسات کے ذریعہ سے حاصل کردہ علم کو ظنی اور غیر یقینی ٹہراتے ہیں۔اسی بناء پر وہ اپنے علم کو دیگر تمام علوم کے مقابلہ میں افضل اوراعلیٰ سمجھتے ہیں۔یہ مقام انہیں مختلف جانکاہ مشقّتوں اور جگر سوز ریاضتوں سے حاصل ہوتا ہے جن میں بعض اوقات جان تک کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔
یہ  ہیں تصّوف کے مختصر مبادیات اور لزوم و خصائص۔
ظہورِ اسلام کے وقت دنیا میں چار بڑے بڑے مذاہب تھے، یہودیت، نصرانیت، مجوسیت اور بُدھ مت۔آخر الذکر دونوں مذاہب (مجوسیت اور بدھ مت) میں وحی کا کوئی امتیازی اور خصوصی تصور نہیں تھا۔اس لئے یہ یقین سے نہیں کہا جاسکتا کہ ان کے ہاں ایک نبی کی وحی اور اربابِ تصّوف کے کشف و الہام میں فرق کیا جاتا تھا یا نہیں۔لیکن یہودیت اور نصرانیت میں یہ فرق ضرور تھا۔اگرچہ بہت مبہم طور پر تھا۔یہودی ، حضرت موسیٰؑ کو جس انداز کا نبی مانتے تھے، اس انداز کا نبی یرمیاہ، دانیال، یسعیاہ، حزقیل وغیرہ کو نہیں مانتے تھے۔لیکن مشکل یہ ہے کہ انہیں بھی نبی (پروفٹ) ہی کہتے تھے۔اس لئے کہ ان کے ہاں نبی کے معنی ہی تھے پیش گوئیاں کرنے والا(اس لئے کہ پروفٹ ، پروفیسی سے ہی بنا ہے،اور پروفیسی  یعنی پیش گوئیاں )۔اس لئے بادی النظر میں یہ سمجھنا دشوار ہو جاتا ہے کہ ان کے ہاں ایک رسول کی وحی اور ایک ولی (سینٹ )کے الہام میں فرق کیاجاتا تھا یا نہیں۔عیسائی اپنی انجیل کے مرتبین (لوقا، مرقس، وغیرہ ) کو سینٹ کہتے ہیں اور انہیں حضرت عیسیٰؑ کا ہم مرتبہ نہیں مانتے۔یہ غالباً اس لئے کہ ان کے نزدیک حضرت عیسیٰؑ کا مقام خدائی مقام ہے۔ جس میں کوئی اور شریک نہیں ہو سکتا۔ ان کے بعد بھی ان کے ہاں سینٹس ہی کا سلسلہ چلتا ہے۔اس اعتبار ۔سے کہا جاسکتا ہے کہ عیسائیوں کے ہاں رسول کی وحی اور اولیاء کے کشف و الہام میں فرق ہے۔لیکن وحی اور الہام کا فرق ، خواہ وہ عیسائیوں کے ہاں ہو یا مسلمانوں کے ہاں، صرف اصطلاحی فرق ہے۔نوعیت دونوں کی ایک ہی ہے۔مسلمانوں کو یہ فرق زیادہ شدت سے کیوں کرنا پڑا، اس کے متعلق بھی بحث کی جائیگی۔
یہودیت ظواہر پرستی کا مذہب ہے اس لئے اس میں با طنیت کی گنجائش بہت کم تھی لیکن معلوم ہوتا ہے کہ بیت المقدس کی پہلی تباہی کے بعد ، بابل کی اسیری کے زمانے میں جب یہ قوم اپنے ضعف و انحطاط کی انتہا تک پہنچ چکی تھی اور یہی زمانہ تصّوف کے ابھرنے کا ہوتا ہے، انمیں بھی کچھ کچھ باطنیت کے آثار نمودار ہونے شروع ہوگئے۔چنانچہ اس دور میں ان کے نبیوں یعنی پروفٹس کے احوال و ظروف کچھ اس قسم کے ہیں جیسے باطنی خلوت گاہوں میں اربابِ تصّوف کے ہوتے ہیں۔اسی قسم کا اسلوبِ زندگی ، وہی اندازِ گفتگو، اسی طرح کے مکاشفات اور الہامات، اُسی نوع کی پیش گوئیاں۔لیکن حقیقی تصّوف ان میں اس کے بعد جاکر آیا جب ان کے مذہبی پیشواؤں نے اسکندریہ میں یونانی فلسفہ کا مطالعہ کیا اور اس فلسفہ اور اپنے معتقدات کے امتزاج سے ایک نیا مذہب ایجاد کیا۔فیلو اس مذہب کا امام ہے۔ تصّوف کا ابوالاباء در حقیقت افلاطون کو سمجھنا چاہئے۔اس نےسب سےپہلے یہ تصورپیش کیا تھا کہ اس عالمِ محسوس کے اوپر ایک عالمِ امثال ہے۔وہ عالم حقیقی وجود رکھتا ہے اور یہ عالم اس کا محض پر تو ہے۔اس عالم میں جو کچھ ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اس کی حقیقت سراب سے زیادہ کچھ نہیں۔اس حقیقی عالم کے متعلق علم، حواس کے ذریعے حاصل نہیں ہوسکتا۔باطنی طریق سے حاصل ہوسکتا ہے۔افلاطون کے اس فلسفہ یا بالفاظِ صحیح ، تصّوف کی نشاۃِ ثانیہ بعد کے فلاسفروں کی ایک جماعت کے ہاتھوں ہوئی جن کا امام فلاطینس تھا۔ان فلاسفروں میں سے ایک اپولونیؤس ٹائینا نے ہندوستان کا سفر کیا اور وہاں کے براہمنوں سے ہندی تصّوف سیکھا۔فلاطینس، رومی لشکر کے ساتھ ایران گیا اور وہاں کے مغوں سے مجوسی تصّوف کی تعلیم حاصل کی۔اس کے بعد ان فلاسفروں نے فلاطینس کی زیرِ سرکردگی افلاطون کے فلسفۂ قدیم کو، ان ہندی اور ایرانی تصّورات کے ساتھ ملا کر ایک جدید قالب میں ڈھالا۔اس کانام نَوفلاطونی فلاسفہ یا نیو پلاٹونزم ہے۔اس فلسفہ کا مرکز اسکندریہ تھا اور یہیں اس سے فیلو کا یہودی تصّوف متاثر ہوا۔اس تصّوف کا سب سے پہلا اثر یہ تھا کہ تورات کی شریعت ، معرفت اور حقیقت میں بدل گئی چنانچہ یہودی تصّوف کی سب سے اہم کتاب زہاؔر میں ہے کہ:-
تورات کی رُوح در حقیقت اس کے باطنی معنوں میں پوشیدہ ہے۔انسان ہر مقام پر خدا کا جلوہ دیکھ سکتا ہے بشرطیکہ وہ تورات کے ان باطنی معانی کا راز پاجائے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے لگ جائے۔
تورات کی شریعت ، ہر بنی اسرائیل کے لئے کھلی تھی لیکن تورات کے باطنی معانی صرف خواص تک محدود ہوکر رہ گئے۔چنانچہ مثناہ (کتابِ "حقیقت") میں لکھا ہے کہ :-
 کتابِ پیدائش کے باطنی معانی کی تعلیم ایک وقت میں ایک سے زیادہ آدمیوں کو نہیں دی جانی  چاہئے۔اس کی سخت ممانعت ہے اور کتاب حزقیل کے پہلے باب کی تعلیم تو کسی کو بھی  نہیں دینی چاہئے تا وقتیکہ اس نے مقامِ ولایت حاصل نہ کر لیا ہو۔
ان کا عقیدہ یہ تھا کہ تورات کے اصل معانی اس کے الفاظ سے نہیں مل سکتے۔ان کی گہرائیوں تک پہنچنے کا ایک او رطریقہ ہے جو عوام کی نگاہوں سے پوشیدہ ہے۔وہ کہتے تھے کہ عبرانی زبان کے حروفِ ابجد میں عجیب و غریب تاثیر ہے اور انہیں خاص طریقوں سے اکٹھے کرنے اور دہرانے سے تورات کے الفاظ کے باطنی معانی معلوم ہوجاتے ہیں۔نیز ایک سے دس تک کے عدد بھی یہی خواص و تاثیرات رکھتے ہیں۔ان حروف اور اعداد کے متعلق کتابِ زہاؔر میں ہے کہ :-
خدا نے ان کے نقوش تیار کئے۔پھر ان کے سانچے بنائے۔ان کا وزن کیا،ان میں ادل بدل کیا، انہیں ایک دوسرے کے ساتھ ملایا اور ان کے پراسرار مجموعوں سے کائنات کی ہر شے کی رُوح پیدا کی۔چنانچہ کائنات میں جو کچھ موجود ہے وہ بھی انہی کی قوت کے سہارے قائم ہے۔ اور جو کچھ پیدا ہوگا وہ بھی انہی کے ذریعے پیدا ہوگا۔
ان حروف اور اعداد کا باطنی علم، علمِ حقیقی ہے اور اس سے انسان پر اسرار و رموزِ کائنات اور تورات کے حقیقی مفہوم کی راہیں کھلتی ہیں۔اس سے عجیب و غریب کرامات صادر ہونےلگ جاتی ہیں۔چنانچہ ان کے ہاں ان کے "رابا نی صوفیوں"رابانک مسزم کی شعبدہ بازیوں کے عجیب عجیب قصے مشہور ہیں۔مثلاً یہ کہ وہ سبت کی شام کو رموزِ کائنات کے حل کرنے میں مصروف ہوتے، بھوک لگتی تو ایک تین سالہ بچھڑا نمودار ہوجاتا جسے وہ کھاجاتے۔وقس علیٰ ہذا۔ان کے یہ اربابِ تصّوف اپنے ہاں کی الہامی کتابوں کی تاویلات اپنے ذاتی مکاشفات سے کرتے اور خوابوں کی تعبیر سے زندگی کے مسائل کا حل بتاتے اور آنے والے واقعات کی خبریں دیتے۔جب عیسائیت کا ظہور ہوا تو یہ تصّوف یہودیوں میں عام تھا۔حضرت عیسیٰؑ کی تعلیم ،اللہ کے ہر سچے نبی کی طرح ، ان خرافات کے خلاف صدائے احتجاج تھی۔یہی وجہ تھی کہ یہودی پیشوائیت ان کی جان تک کی دشمن ہوگئی۔لیکن ان کی تشریف براری کے بعد خود عیسائیت یہی کچھ بن کر رہ گئی۔ایک تو اس لئے کہ جو لوگ عیسائی ہوئے تھے وہ پہلے یہودی ہی تھے۔اور دوسرے اس لئے کہ عیسائیت اپنے ابتدائی دور ہی میں سخت نامساعد حالات کا شکار ہوگئی۔اس لئے اسےبہت جلد، مجاہدانہ سعی و عمل کو چھوڑ کر تصّوف کی قرار گاہ میں پناہ لینی پڑی۔بہرحال اب ہم عیسائیت کے تصّوف کی طرف آتے ہیں۔
عیسائیت میں پہنچ کر تصّوف نے ایک منظم مسلک، اورگنائزڈ سسٹم ، کی شکل اختیار کر لی۔اب باقاعدہ خانقاہیں قائم ہو گئیں۔ان کے قواعد و ضوابط وضع ہوئے۔ان میں داخلہ کی شرائط مقرر ہوئیں۔ان کے اندر زندگی بسر کرنے کے طور طریق متعین ہوئے جن پر نہایت سختی سے پابندی لازمی ٹہرائی گئی۔اس "روحانی ترقی" کے لئے مختلف قسم کی ریاضتوں اور مشقتوں کے زینے تجویز ہوئے۔جگہ جگہ مختلف اولیاء ، سینٹس، نےاپنے حلقے اور مرکز قائم کئے اور اس طرح پورا مذہب، تصّوف کی آماج گاہ بن گیا۔اب ہر مقام پر اس قسم کے الفاظ دہرائے جانے لگے کہ :-
اگر تم حواس کے دروازے بند کرکے دل کی آنکھیں کھولو، اگر تم جسمانی لذائز سے منہ موڑ کر روحانی کیفیات کا پیچھا کرو تو تم خدا کو اپنے سامنے بے نقاب دیکھ لوگے۔جب آدم اورحوّا کی جسمانی آنکھیں کھلی ہیں تو ان کی روحانی آنکھیں بند ہو گئی تھیں لیکن اس کے بعد یسوع مسیح آیا کہ جن کی آنکھیں بند ہیں وہ دیکھنے لگ جائیں اور جو دیکھ رہے ہیں ان کی آنکھیں بند ہوجائیں۔پس یاد رکھو! حواس کی آنکھیں بند اور دل کی آنکھیں کھولنے ہی سے خدا اور اس کا اکلوتا بیٹا بے نقاب ہوکر سامنے آسکے گا۔(سینٹ اوریجن)
اس مقصد کے لئے ترکِ دنیا، ترک، علائق، ترکِ خیالات، ترکِ آرزو، غرضیکہ "روحانیت " کے سوا ہر شے کا ترک ضروری پاگیا اور حقیقی زندگی اسے سمجھا گیا جس میں انسان ہر وقت،'گوش بند چشم بند ولب بہ بند' کی حالت میں مراقبہ میں بیٹھا ، رموز و اسرار کائنات کے جلوے دیکھتا رہے۔
وہ عالمِ غیب ، وہ دنیائے نور، وہ بلند تر مقام جہاں سادہ، غیر متبدل اور مطلق حقیقتیں، باطنیت کی مضمر خاموشیوں کی نورانی قباؤں میں لپٹی ہوئی ہیں۔ان کے جلوے دیدۂ ظاہر بیں سے نہیں دیکھے جاسکتے، انہیں دیکھنا چاہتے ہو تو اپنے حواس کو بھی پیچھے چھوڑو اور عقل و خرد اور شعور و ادراک کو بھی۔یعنی ہر اس چیز کو جو عقل و حواس کے ذریعے سمجھ میں آسکتی ہے خواہ وہ موجود ہے یا غیر موجود۔سب کو چھوڑو اور اپنے آپ کو اس میں جذب کرنے کی کوشش کرو جو ان تمام حدود و قیود سے ماوراء ہے۔یاد رکھو! اگر تم  میں ان نسبتوں میں سے کوئی نسبت بھی باقی رہی جن سے وہ ماوراء ہے تو تم اس تک نہیں پہنچ سکو گے۔اس کے نور کی شعاعِ کامل تاریکی میں نظر آیا کرتی ہے۔کامل تاریکی میں۔(ڈون ویسس)
ا س کیلئے:-
ترکِ  دنیا، مرشد کی اطاعت، خاموشی اور انکساری اوّلین شرائط ہیں۔(سینٹ بینی ڈکٹ)
ان طریقوں سے ایک تارک الدّنیا زاہد کی کیفیت یہ ہو جاتی ہے کہ :-
اسے ایک نور کی چادر اڑھا دی جاتی ہے، اس کے دل سے روشنی کی کرن پھوٹتی ہے جو اور زیادہ گہری اور تیز روشنی کی طرف اس کی راہنمائی کرتے ہے۔تاآنکہ وہ دریائے نور میں غرق ہوجاتا ہے۔اب اسے اپنے آپ پر بھی کوئی اختیار نہیں رہتا۔وہ دنیا داروں کی نگاہوں  میں پاگل او روحشی سا نظر آنے لگتا ہے، لیکن در حقیقت وہ تکمیلِ نفس کی منزلیں طے کر رہا ہوتا ہے اور تمام اسرار و رموز کے پردے اس کی آنکھوں سے اٹھتے جاتے ہیں۔اورآخر الامر وہ خود حقیقتِ مطلق میں جذب ہوجاتا ہے۔ (سینٹ ماکا ریئس)
خدا اور انسانی روح کے اس تعلق کو اوریجن "عروسی تعلق" کی اصطلاح سے تعبیر کرتاہے اور ان کے دوسرے سینٹ بھی اسے "آسمانی دلہن" (ہیون لی اسپاؤز) کہہ کر پکارتے ہیں۔اس اصطلاح پر ذرا غور کیجئے ، یہ وہی تصور ہے جو ہمارے ہاں "عرس" کے رنگ میں رائج اور فقیری "دلہنوں" کی صورت میں جلوہ بار ہے۔چونکہ اس طرح زہد و انزوا کی زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی نگاہوں میں بے حد مقبول اور واجب التعظیم قرار پاتے تھے اس لئے رفتہ رفتہ ہوا یہ کہ لوگ فوج در فوج اس مسلک کی طرف بڑھنے شروع ہوگئے۔چنانچہ چوتھی صدی عیسوی میں حالت یہ ہوگئی تھی کہ بستیاں خالی ہو رہی تھیں اور خانقاہیں آباد۔شام اور فلسطین کے علاقے خاص طور پر اس مشربِ خانقاہیت کے مراکز تھے۔
یہ تھے اس وقت کے حالات جب اسلام کا ظہور ہوا۔(ایران اور ہندوستان کے تصّوف کا تذکرہ اس مقام پر نہیں چھیڑا جاسکتا کہ مضمون کی طوالت بڑھ کر کتاب کی صورت بھی اختیار کر سکتی ہے) اس وقت عرب اور اس کے گردو پیش یہودی اور نصرانی ہی پھیلے ہوئے تھے۔ہندو ایران کے ساتھ انکے روابط و علائق براہِ راست نہیں تھے۔یوں بھی یہودی اور نصرانی تصّوف ، ایران کے مجوسی (مانوی) تصّوف اور ہندوستان کے بودھی تصور ِ فنا اور وحدت ِ وجود کو اپنی آغوش میں لے چکے تھے۔ہندی تصّوف (ویدانت) کا سب سے بڑا پرچارک یا مبلغ شنکر اچاریہ ہے۔اس کے نزدیک اصل علم آتما تم ودِّہی یا معرفتِ نفس ہے۔وہ روح کو ازلی اور غیر فانی مانتا ہے اور خارجی کائنات کو فانی ۔اس  کی تعلیم یہ ہے کہ برہما ادراک سے بالاتر ہے اور اس کی حقیقت معلوم کرنے کا ذریعہ وجدان ہے۔کائنات اور اس کی تمام اشیاء سراب (مایا ) ہیں۔"میں" بھی مایا ہے۔ترکِ خواہشات کے ذریعے انسان مایا کے فریب سے نکل سکتا ہے۔شنکر اچاریہ کے بعد اس مذہب (ویدانت) کا مبلّغ پتنجلی ہے جو وحدت ِ وجود کا قائل ہے۔اہم برہم اسمی (میں ہی برہما ہوں) اس کا مشہور مقولہ ہے۔
یہودیت یا نصرانیت کے مقابلے میں اسلام کے متعلق صحیح بات تک پہنچنے میں بڑی آسانی ہے۔اس لئے  کہ ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ نے اپنے پیغام کو لوگوں کے سامنے کن الفاظ میں پیش کیا تھا۔لیکن رسول اللہ ﷺ نے اللہ کے پیغام کو جن الفاظ میں دنیا تک پہنچایا تھا اس کا ایک ایک حرف قرآن کے اندر محفوظ ہے۔لہٰذا ہم یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ زیرِ نظر موضوع کے متعلق قرآن کی تعلیم کیا ہے۔
قرآن نے کہا ہے کہ اللہ نے انسان کو عقل و فکر دی ہے اور اسے بار بار تاکید کی ہے کہ وہ کائنات کے نظام پر غور کرے۔ان قوانین کا علم حاصل کرے جن کی رُو سے یہ اتنا عظیم الشّان اور محیر العقول کارخانہ اس حسن و نظم سے چل رہا ہے۔اس طرح وہ کائناتی قوتوں کا راز پالے گا جو اس کے لئے قوانین کی زنجیروں میں جکڑ دی گئی  ہیں۔او ر جب ان کا راز پالے گا یعنی یہ معلوم کرلے گا کہ وہ کس طرح کام کرتی ہیں اور کیا کیا کام کرتی ہیں ، تو ان سے بے شمار فوائد حاصل کر سکے گا۔جو مشہود شکل میں بنی نوع انسان کی فلاح و بہبودکا آئینہ دار ہونگی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی اس نے یہ بھی بتایا ہے کہ اشیائے کائنات سے جو مقاصد حاصل ہوتے ہیں انہیں کس طرح صحیح مصرف میں لایا جائے۔یہ وہ سوال ہے جسے تنہا انسانی عقل حل نہیں کر سکتی ان کا استعمال ان مستقل اقدار کے مطابق کرنا ہوگا جنہیں اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے لئے متعین کیا ہے۔ان کا علم اسے وحی کے ذریعے مل سکے گا۔وحی کو انسان اپنی محنت اور کسب وہنر سے حاصل نہیں کر سکتا۔یہ اللہ کی طرف سے وہبی طور پر ملتی ہے۔یعنی انسان از خود انکشافِ حقیقت نہیں کر سکتا۔حقیقت اپنے آپ کو خود انسان پر منکشف کرتی ہے۔ لیکن یہ انکشاف ِ حقیقت (وحی) ہر انسان پر نہیں ہوتا ۔یہ انکشاف خاص خاص انسانوں پر ہوتا ہے جنہیں نبی یا رسول کہا جاتا ہے۔
رسول کے بعدانسانوں کے پاس علم کے ذرائع صرف دو ہی رہ گئے۔(1) اللہ کی وہ راہنمائی جو قرآن کے اندر محفوظ ہے اور (2) انسانی عقل۔ ان کے علاوہ تیسرا ذریعۂ علم نہیں جس کا ذکر قرآن میں ہو۔اس میں کشف ، الہام، باطنیت"اندرونی روشنی" وغیرہ کا کوئی تذکرہ نہیں ، اس میں صوفی یا تصّوف کالفظ تک نہیں آیا۔اس میں اولیاء کے کسی گروہ کا الگ ذکر نہیں ۔وہ جماعتِ مومنین ہی کو اولیاء اللہ کہہ کر پکارتا ہے۔اس میں انسانی روح کے اللہ کے اندر جذب ہوجانے کا کوئی ذکر نہیں، اس میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ کی اصطلاحات کا کوئی گزر نہیں۔باقی رہا سوال قرآن ، سواس کے متعلق اُس نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ یہ عربی زبان کی ایک کتاب ہے ۔اس کی زبان بڑی صاف اور واضح اور روشن ہے۔اس میں کسی قسم کا کوئی الجھاؤ نہیں، کوئی پیچ نہیں ، خم نہیں، ابہام نہیں،کوئی تہہ در بات   نہیں۔اس پر غور و فکر کرنے سے اس کے معنی آسانی سے سمجھ میں آسکتے ہیں۔اس میں زیادہ تر محسوس امور ہی سے بحث کی گئی ہے۔لیکن جہاں کہیں مجرّد  حقائق کا ذکر آیا تو  جیسا ایک بلند پایہ کتاب کا انداز ہوتا ہے، انہیں محسوس تشبیہات  میں بیان کر دیا گیا ہے۔او ر یہ چیز علم کی پختگی سے حاصل ہوسکتی ہے۔قرآن نے کہیں یہ نہیں کہا کہ اس کے الفاظ کا کوئی باطنی مفہوم ہے جسے صرف خاص خاص لوگ ہی سمجھ سکتے ہیں۔وہ تمام نوعِ انسانی کیلئے راہ نمائی کا ضابطہ ہے اس لئے اس کے مطالب تمام نوعِ انسانی کے سامنے یکساں طور پر کھلے ہیں، اس میں نہ زمان کی قید ہے، نہ مکان کی ۔وہ خود روشن (نور) ہے اور جو بھی اس سے راہ نمائی حاصل کرنا چاہے اسے روشنی عطا کر دیتا ہے۔اگر ہم اپنے معاشرے کو قرآنی خطوط پر متشکل کرنا چاہیں تو اس کے لئے ضروری ہوگا کہ ہم اس قسم کے ریسرچ اسکالرز اور سائنسدان پیدا کریں جو انفس و آفاق کے ہر شعبے میں قوانینِ فطرت کے مشاہدات و تجربات سے فطرت کی قوتوں کو مسخّر کرتے جائیں اور اس کے ساتھ وہ قوانینِ الہٰیہ جو قرآن کے اندر محفوظ ہیں اس طرح عام کئے جائیں کہ فطرت کی ان قوتوں کو ان قوانین کے مطابق تقسیم اور استعمال کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں قرآن کی رو سے علماء کہا جائے گا۔جب تک "علم اور علماء" کے متعلق ہمارا موجودہ تصور نہیں بدلتا، اللہ تک پہنچنا تو ایک طرف ، ہم زندہ قوموں کے زمرے میں بھی شامل نہیں ہوسکتے۔
وفیھا اٰیت لّقوم یعقلون۔




__._,_.___
Reply via web post Reply to sender Reply to group Start a New Topic Messages in this topic (1)
Recent Activity:
.

__,_._,___



--
Need Your Comments.....!

-- 

For University of Pakistan Study Material Sharing, Discussion, etc, Come and join us at http://4e542a34.linkbucks.com
You received this message because you are subscribed to the Google
Groups "Study" group.
To post to this group, send email to http://ca13054d.tinylinks.co
For more options, visit this group at
http://004bbb67.any.gs

No comments:

Post a Comment